قرآن

   

الف لام میم ۔ یہ ذِی شان کتاب ذرا شک نہیں اس میں یہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے۔ (سورۃ البقرہ :۱۔۲) 
گزشتہ سے پیوستہ … یہ نہیں فرمایا کہ لا یراب فیہ کہ اِس میں شک نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ اِس پر شک وشبہ کی گرد اُڑانے والوں کی نہ تب کمی تھی نہ اب ہے۔ بلکہ فرمایا لا یراب فیہ یعنی اس کے واضح دلائل، اس کی روشن تعلیمات ، اس کے بیان کر دہ تاریخی واقعات اور اس کی پیشین گوئیاں حق وصداقت کے وہ بلند مینار ہیں جہاں شک وشبہ کا غبار نہیں پہنچ سکتا۔ اگر کوئی شبہ کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی کج فہمی اور کور ذوقی ہے۔ اگر یرقان کے بیمار کو ہر چیز زرد دکھائی دے تو یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے۔ ہر چیز تو زرد نہیں۔اگرچہ قرآن کریم ھدی للناس یعنی سارے انسانوں کے لئے پیغام ہدایت ہے۔ لیکن اس کی ہدایت سے فائدہ کیونکہ پرہیزگار ہی اُٹھاتے ہیں۔ اس لئے یہاں اس لحاظ سے تخصیص کر دی۔ اور ایسا استعمال ہر زبان میں عام ہے ۔ تقویٰ کا لغت میں تو یہ معنی ہے ’’نفس کو ہر ایسی چیز سے محفوظ کرنا جس سے ضرر کا اندیشہ ہو‘‘۔ عرف شرع میں تقویٰ کہتے ہیں ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانا۔ اس کے درجے مختلف ہیں۔ ہر شخص نے اپنے درجہ کے مطابق اس کی تعبیر فرمائی ہے۔ میرے نزدیک سب سے موثر اور آسان تعبیر یہ ہے: ’’تیرا رب تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں جانے سے اُس نے تجھے روکا ہے اور اِس مقام سے تجھے غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اُس نے تجھے حکم دیا ہے۔ …جاری ہے