وہ جو ایمان لائے ہیں غیب پر اور صحیح صحیح ادا کرتے ہیں نماز اور اُس سے جو ہم نے انھیں روزی دی خرچ کرتے ہیں ۔(سورۃ البقرہ :۳)
یہاں سے المفلحون تک اُن متقین کی علامات بیان کی گئی ہیں جو قرآن کی ہدایت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اُن کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ ایمان کا معنی ہے محکم یقین۔ اور غیب ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو ظاہری حواس کی رسائی سے بلند اور عقل کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ مثلاً وحی، فرشتے، قیامت، جنت، دوزخ اور خود ذاتِ الٰہی۔ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو نہ آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہیں اور نہ عقل سے سمجھی جا سکتی ہیں۔ ان کے جاننے کا فقط ایک ذریعہ ہےاور وہ نبی کی ذات گرامی ہے۔ اس کی زبان حق ترجمان سے جو کچھ نکلے اس پر انسان محکم یقین رکھے۔ اس لئے ایمان بالغیب کو تقویٰ کی اولین شرط قرار دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ شریعت اسلامیہ کے وہ احکام جن کی حکمتوں کے سمجھنے سے انسانی عقل (ابتداء میں ) قاصر رہتی ہے یا وہ ارشادات جو اس کے ذاتی مفاد یا اس کے گروہی اور محدود وطنی منافع کے خلاف ہوتے ہیں تو ایسے حکموں کو تسلیم کرنا بھی ایمان بالغیب میں داخل ہے۔ یعنی نبی کی بتائی ہوئی ہر چیز کو سچا جانے اور نبی کے ارشادات کے مفید اور نفع مند ہونے پر اسے اس درجہ یقین ہو کہ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود وہ ان کو عملی جامہ پہنانے پر آمادہ ہو۔ اعتماد اور اطاعت کا یہ مقام جب تک کسی کو میسر نہیں ہوتا وہ قرآن کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ بلکہ بےیقینی اور تذبذب کی یہ کیفیت اس کے تمام اعمال کو بےنتیجہ کر دیتی ہے ۔ تو معلوم ہُوا کہ متقی کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی تمام چیزوں پر محکم یقین رکھتا ہے ۔