اور وہ جو ایمان لائے ہیں اس پر (اے حبیب ﷺ) جو اُتارا گیا ہے آ پ ﷺ پر اور جو اُتارا گیا آپ سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں ۔(سورۃ البقرہ :۴)
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ لوگ جو انسانی رشد وہدایت کے لئے آسمانی وحی کے قائل ہی نہیں بلکہ اپنی عقل کو ہی اپنی رہنمائی کے لئے کافی سمجھتے ہیں یا وحی کے قائل تو ہیں لیکن بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ وہ قرآنی ہدایت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ یہ چوتھی علامت ہے۔ نیز اس آیت میں حضور ﷺ کی ختم نبوت کی بین دلیل ہے۔ کیونکہ وحی جس پر ایمان لانا ضروری ہے وہ یا تو حضور کریم ﷺپر نازل ہوئی یا حضورؐ سے پہلے۔ اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا تو حضور کریم ﷺکے بعد بھی وحی نازل ہوتی اور اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا۔ اس آخرت کی زندگی کو صرف تسلیم کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایقان ضروری ہے۔ ایقان کہتے ہیں علم کی وہ پختگی جس میں شک وشبہ کا گزر نہ ہو۔ اور جب کسی چیز یا حقیقت کا علم اتنا پختہ ہوجاتا ہے تو وہ عقل، دل اور ارادہ کو مسخر کر لیتا ہے۔ انسان اس کے خلاف نہ کچھ سوچ سکتا ہے اور نہ کچھ کر سکتا ہے جب روز جزاء کے ساتھ کسی کا علم ویقین اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے تو عمل کی شاہراہ پر ہر قدم اٹھانے سے پہلے وہ ان نتائج کا اندازہ لگا لیا کرتا ہے جو اس پر مرتب ہونے والے ہیں۔ ہمیں اپنے قول و عمل میں جو افسوسناک تضاد دکھائی دے رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں قیامت پر وہ ایقان نہیں جو اپنی قوت سے ہمارے عمل کو ہمارے قول سے ہم آہنگ کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں روز جزاء پر یقین بخشے تاکہ قول وعمل کی یہ کشمکش ختم ہو جس نے ہمیں ذلت کی پستیوں میں دھکیل دیا ہے اور ہمارا تماشہ دیکھنے والوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔