قرآن مجید کی آیات سے متعلق درخواست خارج کئے جانے کا خیرمقدم، سابق وزیر محمد علی شبیر کا بیان

   

حیدرآباد : سابق ریاستی وزیر محمد علی شبیر نے قرآن مجید کی آیات کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی گئی درخواست کو سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد کئے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ملعون وسیم رضوی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اور 50 ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستانی عدلیہ دستور کے مطابق فیصلے صادر کرتی ہے۔ دستور ہند میں تمام شہریوں کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے اور اُس کی تبلیغ کا اختیار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کو تنازعہ کا شکار بناتے ہوئے وسیم رضوی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تاکہ سنگھ پریوار کے آقاؤں کو خوش کیا جاسکے لیکن سپریم کورٹ نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس طرح کے گستاخوں کے لئے آئندہ راستہ بند کردیا ہے۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ وقفہ وقفہ سے مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے قرآن اور حدیث کے بارے میں تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ملعون وسیم رضوی کا ریکارڈ اِس سلسلہ میں کافی پرانا ہے۔ بابری مسجد کے معاملہ میں بھی اُس نے متنازعہ موقف اختیار کیا تھا۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں کے لئے بھی ایک مثال ہے جہاں شریعت کے خلاف مقدمات دائر کئے جاتے ہیں اور بعض عدالتوں نے مقدمات کی سماعت کی ہے۔ محمد علی شبیر نے گیان واپی مسجد کے خلاف دائر کردہ درخواست کی مذمت کی اور کہاکہ مقامی عدالت نے آرکیالوجیکل سروے کے ذریعہ رپورٹ طلب کی ہے۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ نرسمہا راؤ دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی تمام عبادت گاہوں کے موقف کو برقرار رکھتے ہوئے قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی تاریخی مسجد کے موقف کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھوں نے کہاکہ ہائیکورٹ کو فوری حکم التواء جاری کرتے ہوئے تحت کی عدالت کے فیصلہ پر روک لگانی چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں کسی کو رمق برابر بھی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ہر مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے تحفظ کی ذمہ داری لی ہے۔ صبح قیامت تک قرآن مجید کا ایک بھی حرف تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔