قرآن

   

ہم عنقریب توجہ فرمائیں گے تمہاری طرف اے جن و انس ،پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ (سورۂ رحمن ۳۱۔۳۲)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس وقت بہت مصروف ہے ۔ بڑی کٹھن مہمات درپیش ہیں۔ بڑے اہم معاملات تصفیہ طلب ہیں۔ تم سے نمٹنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ۔ جب ان مہمات سے فراغت ہوگی تو پھر تم سے باز پُرس فرمائے گا ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات اس سے برتر ہے کہ کوئی کام اسے یوں مشغول کردے کہ وہ دوسرے کام کرنے سے معذور ہوجائے ۔ یہاں فرغ بمعنی قصد مستعمل ہوا ہے ، چنانچہ علامہ ابن منظور لکھتے ہیں کہ سَنَفْرُغُ کا معنی توجہ کرنا ، قصد کرنا ہے ۔ حضرت صدیقؓ کے اس قول افرغ الیٰ ضیافک کامعنی ہے اپنے مہمانوں کی طرف متوجہہ ہو۔ نیز عرب جب کسی کو دھمکی دیتے ہیں تو کہتے ہیں اذا تفرغ الیک ای اقصد لک کہ میں اب تیری طرف متوجہہ ہوں گا اور تیری خبر لوں گا ۔ اور ثقلٰن سے مراد جن و انس ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں گناہوں سے بوجھ ہونے کی وجہ سے انھیں ثقلٰن کہا گیا ہے ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ابھی تو ہم نے تمہیں غور و فکر کرنے ، سوچنے اور اپنی اصلاح کرلینے کی مہلت دی ہوئی ہے تم گناہ کرتے ہو ، نافرمانی کرتے ہو ، ہم درگزر کردیتے ہیں لیکن جب مہلت کی گھڑیاں ختم ہوجائیں گی یا دارالعمل سے تم دارالجزاء میںپہنچ جاؤگے، اس وقت ہم تمہاری طرف متوجہ ہوں گے ، پھر دیکھیں گے کون ہے جو سرتابی کی جرأت کرتا ہے ۔