قرآن

   

پس (ایک گروہ) دائیں ہاتھ والوں کا ہوگا، کیا شان ہوگی دائیں ہاتھ والوں کی۔اور (دوسرا گرو) بائیں ہاتھ والوں کا ہوگا، کیا (خستہ) حال ہوگا بائیں ہاتھ والوں کا۔اور (تیسرا گروہ ہر کار خیر میں) آگے رہنے والوں کا وہ (اس روز بھی) آگے آگے ہوں گے۔وہی مقرب بارگاہ ہیں۔عیش وسرور کے باغوں میں۔ ایک بڑی جماعت پہلوں سے ۔ (سورۃ الواقعہ۔۸تا۱۳)
یعنی امت کے اولین دور میں ایسے جانبازوں اور سرفروشوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور بعد میں آنے والے اوقات میں ان کی تعداد گھٹتی جائے گی۔معلوم ہوا کہ عہد نبوت میں جن لوگوں نے اس نبع فیض سے کسب فیض کیا اور اس آفتاب ہدایت سے اپنے دل کی دنیا کو منور کیا، جنہوں نے اس وقت حضور (ﷺ) کے دستِ حق پرست پر اسلام کی بیعت کی جبکہ اسلام قبول کرنا مصائب وآلام کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جنہوں نے اللہ کے رسول کے لیے اپنے گھر بار ،وطن اور عیال کو چھوڑ دیا اور جب بھی جہاد کے نقارہ پر چوٹ لگی وہ کفن بردوش حاضر ہوگئے ۔ یہ اس طائفہ سعیدہ کے سرخیل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا بےمحابا نزول ہوتا ہے۔ افسوس ہے ان کم فہم لوگوں پر جو ان نفوس قدسیہ کے بارے میں زبان طعن دراز کرتے ہیں جن کی توصیف اور ثناء سے قرآن کریم بھرا پڑاہے۔حضرت ابو سعید خدری ؓحضور (ﷺ) کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں اے لوگو! میرے صحابہ ؓ کو سب وشتم مت کرو۔ اگر تم کوہ احد کے برابر اب سونا بھی خرچ کرو تو ان کے ایک مد یا نصف مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔