قرآن

   

… اور نہ زور سے آپ کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو (اس بےادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔( سورۃ الحجرات۔ ۲) 
صحابہ کرام جو پہلے ہی سراپا ادب و احترام تھے، اس آیت کے نزول کے بعد مزید محتاط ہوگئے۔ حضرت ثابت ابن قیس ؓجو قدرتی طور پر بلند آواز تھے، اس آیت کے نزول سے ان پر تو گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ گھر میں بیٹھے رہے۔ دروازہ کو قفل لگا دیا اور دن رات زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ مرشد کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے جب ایک دو روز ثابت کو نہ دیکھا تو ان کے بارے میں دریافت کیا۔ عرض کیا گیا کہ انہیں تو دن رات رونے سے کام ہے، دروازہ بند کر رکھا ہے۔ حضور (ﷺ) نے بلا بھیجا اور رونے کی وجہ پوچھی ۔ غلام اطاعت شعار نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری آواز اونچی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آیت میرے حق میں نازل ہوئی ہے۔ میری تو عمر بھر کی کمائی غارت ہوگئی۔ اس دلنواز آقا نے تسلی دیتے ہوئے یہ مژدہ جانفرا سنایا: ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم قابل تعریف زندگی بسر کرو اور شہید قتل کیے جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ عرض کیا اپنے رب کریم کی اس نوازش بےپایاں پر یہ بندہ راضی ہے۔ علامہ ابن قیم اس حدیث کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ جب مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر گھمسان کا رن پڑا تو مسلمانوں کے قدم ڈگمگانے لگے۔ حضرت ثابتؓ اور حضرت سالمؓ نے آپس میں کہا کہ عہد رسالت میں تو ہم کفار سے اس طرح نہیں لڑا کرتے تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے لئے گڑھا کھودا اور اس میں جم کر دشمن پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی حتیٰ کہ دونوں نے جام شہادت نوش کیا۔