ریاض فردوسی
اللہ تعالیٰ کونہ کبھی ان کا گوشت پہنچتاہے اورنہ ہی ان کا خون بلکہ اللہ تعالیٰ کوصرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے،اس طرح اُس نے تمہارے لیے ان کومسخرکیاہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کروکہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اورآپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں۔(سورۃ الحج) کتاب اللہ میں قربانی کیلئے تین (۳) لفظ استعمال ہوئے : قربان،منسکا ََاور نحر ۔ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز ہے۔قربانی کے معنی ایثار کے ہیں۔ہر سال ذی الحجہ کے اسلامی مہینے کے دوران، دنیا بھر کے مسلمان اس یاد کو تازہ کرنے کے لئے جو اللہ کی خاطر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا ہے۔اللہ کی رضامندی کی نایاب نشانی کی عکاسی کرنے کے لئے جانور، بکرا، بھیڑ، گائے یا اونٹ کو ذبح کرتے ہیں۔اگر قربانی میں نام و نمود،شہرت و نمائش،رسم و رواج، ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی کوششیں،اور دیگر لغویات باتوں کا دخل ہوگا تو ہماری قربانی مقبول نہ ہوگی۔ اللہ کے یہاں ہمارا سخت مواخذہ ہوگا۔ قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول ہوجاتا ہے۔اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی قربانی خالص اللہ کے لئے کریں۔قربانی حقوق مالکانہ یعنی خدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ نعمتوں کا دل سے اور عملاً اعتراف ہے۔قربانی اس لئے بھی ہے کہ ہم سے یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔اس لئے ہم قربانی کرتے وقت کہتے ہیں کہ: اللھم منک ولک، خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔ہمارے وہ دعوے جو کتاب و سنت سے ہٹ کر محض نفسانی خواہشات پر ہیں۔ایسے جھوٹے دعوے ہمارے دل کو ٹھنڈک دے یا معاشرے میں ہم معزز کہلائے ،اگرچہ دنیا میں ہماری واہ واہی ہو،لیکن آنکھ بند ہونے کے ساتھ ان دعوؤں کی حقیقت ہمارے سامنے کھل جائے گی مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی،وہ وقت آنے سے پہلے ہم اپنی انا کو چھوڑ کر نفسانی خواہش میں کئے گئے دعووں سے توبہ کرکے اصلاح کرلیں۔شریعت اسلام ہمارے لئے صراطِ مستقیم ہے۔یہ نعمت غیر مترکدہ کتاب اللہ،حدیث شریف اور سنت رسول ﷺ کی صورت میں موجود ہے، اس لیے جب کوئی کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی شخصیت یا گروہ کی اتباع کرتا ہے تو وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے، پھر اس کے لیے منزل مقصود یعنی رضائے الہی تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں۔جب تک ان تمام گمشدہ راستوں سے ہٹ کر کتاب و سنت کی کشادہ، روشن اور سیدھی راہ پر نہیں آتا۔