قربانی : صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں

   

مولانا سید متین علی شاہ قادری
ہجری کیلنڈر کے حساب سے اسلامی سال کابارہواں اور آخری مہینہ ذی الحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ لوگ اس میں حج کرتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کرکے ان کی خاص خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں ۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اﷲ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ‘‘۔ چار حرمت والے مہینے محرم الحرام ، رجب المرجب ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے آقائے دوجہاں سرورِ کون و مکان ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور عشرہ ذی الحجہ کی ہر رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام اپنے رب سے اکثر دعا فرمایا کرتے : ’’اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند عطا فرما ۔ حضرت ابراہیمؑ خلیل اﷲ کی دعا باری تعالیٰ نے قبول فرمائی اور ارشاد ہوا ہم نے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی اور حضرت اسمٰعیل ؑکی ولادت ہوئی ۔ اﷲ تعالیٰ اپنے خاص بندوں سے امتحان لیتا ہے ، امتحان کی تو ہزاروں قسمیں ہیں مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیل ؑ سے جو امتحان لیا اس کی مثال دنیا پیش نہیں کرسکتی ۔ دنیا میں دو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں جان اور اولاد اور حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کو دونوں امتحان سے گذرنا پڑا ۔ امتحان اول نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے اور ابراہیم خلیل اﷲ کو اس میں ڈالا جارہا تھا کہ حضرت جبرئیلؑ حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ اے اﷲ کے خلیل کوئی حکم ہو کوئی حاجت ہو تو پیش فرمائیں، آپؑ نے فرمایا کہ مجھے کوئی حاجت نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہوا اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔
اس طرح سے حضرت ابراہیمؑ خلیل اﷲ پہلے امتحان میں استقامت کے ساتھ گذر گئے اور دنیا دیکھتی رہی ۔ دوسرا امتحان بے آب و گیاہ وادی میں اپنے نورِ نظر و رفیقہ حیات کو چھوڑکر چلے آئے جب دوبارہ ابراھیم علیہ السلام اپنی رفقیہ حیات اور لخت جگر سے ملنے کیلئے تشریف لائے تو ابراہیم ؑ کو حکم دیا گیا کہ ابراہیم قربانی پیش کرو ۔ صبح سویرے سو اونٹوں کی قربانی پیش کردی گئی ۔ دوسرے دن بھی اور تیسرے دن بھی قربانی پیش کردی گئی پھر قربانی کا حکم ہوتا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ ؑ نے عرض کیا اے میرے رب وہ کونسی چیز ہے جو تیری راہ میں پیش کروں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا جو سب سے زیادہ عزیز ہے وہ میری راہ میں قرآن کردو ۔ آپؑ ارشاد غیبی سمجھ گئے اور حضرت بی بی ہاجرہؑ سے صبح سویرے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسمٰعیل ؑ کو نہلاکر اچھے کپڑے پہنادو ، ایک بڑے دربار میں دعوت ہے ۔ حضرت ہاجرہؑ نے فوراً حکم کی تعمیل میں نور نظر حضرت اسمٰعیل ؑؑ کو تیار کرکے سامنے پیش کردیا ۔
حضرت ابراہیمؑ ؑنے ساتھ میں چھری اور رسی رکھ لی اور وادی منٰی کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ادھر شیطان حضرت بی بی ہاجرہؑ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا اے ہاجرہؑ تم آرام سے بیٹھی ہو مگر تمہارے اسمٰعیل کو ان کے والد ذبح کرنے کے لئے منٰی کی طرف لے جارہے ہیں ۔ آپؑ نے فرمایا : ’’اے ناداں کہیں باپ بھی بیٹے کو ذبح کرتا ہے ‘‘۔ شیطان نے کہا تمہارے رب کا یہی حکم ہے ۔ آپ نے فرمایا اگر میرے رب کی یہی مرضی ہے تو ایک اسمٰعیل کیا سینکڑوں اسمٰعیل کو اس کی مرضی پر قربان کرنے کو تیار ہوں ۔ یہاں سے مردود شیطان ناکام ہونے کے بعد حضرت اسمٰعیل ؑسے ملا وہاں سے بھی مایوس ہوکر شیطان حضرت ابراہیمؑ خلیل اﷲ کے قریب پہنچا اور کئی طریقے و حربے استعمال کیا مگر حضرت ابراہیمؑ نے ارشاد فرمایا میرا خواب رحمانی ہے ۔نبی کا خواب وحی الٰہی ہوتا ہے ۔ وادی منٰی میں حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسمٰعیل ؑؑ ایک مقام پر کھڑے ہوگئے ۔ حضرت ابراہیمؑ نے سارا خواب بیان فرمایا ، حضرت اسمٰعیلؑ نے خندہ پیشانی سے عرض کیا اے ابا جان جو کچھ آپ کو حکم ہوا ہے آپ اس میں تاخیر نہ فرمائیں۔ ان شاء اﷲ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ حضرت ابراہیمؑ ؑنے گلے پر چھری رکھ دی ۔ تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا ، حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ علیہ السلام کے اس جذبہ اخلاص و ایثار پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور حضرت جبرئیل کو یہ حکم دیا گیا کہ اے جبرئیل جنت سے ایک مینڈھا لاکر اسمٰعیل کی جگہ لٹادو ۔ حضرت جبرئیلؑ حکم الٰہی پاتے ہی فوراً ایک جنتی دنبہ لاکر لٹادیا۔ چھری چل گئی اور قربانی ہوگئی مگر جب حضرت ابراہیمؑ ؑنے آنکھ کی پٹی کھول کر دیکھا تو یہ منظر نظر آیا کہ ایک دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا ہے اور حضرت اسمٰعیل ؑبازو صحیح سلامت کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔ اس وقت حضرت جبرئیلؑ نے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور حضرت اسمٰعیل ؑنے لاالہ الااﷲ واللہ اکبر پڑھا اور حضرت ابراہیمؑ کی زبان مبارک پر اﷲ اکبر وللہ الحمد کا کلمہ جاری ہوا ۔ اس عظیم قربانی کے متعلق سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا آج بروز عید فرزند آدم کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پیارا نہیں ہے ۔
قربانی کے موقع پر افسوس کا پہلو یہ ہے کہ لوگ جانوروں کی نجاست و گندگی کو گھروں کے باہر اور سڑکو ں پر پھینک دیتے ہیں اور کئی دن تک اس کی بدبو اور اس کی ضرررساں اثرات باقی رہتے ہیں جو فطرت سلیمہ کے لئے قطعاً قابل قبول نہیں اور غیرمسلمین پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ نبی اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ اسلام کی بنیاد پاکیزگی و نظافت پر رکھی گئی ہے ۔ نبی کریم ﷺ صفائی و ستھرائی کا بہت لحاظ فرماتے اور دوسروں کو بھی صاف ستھرا دیکھنا پسند فرماتے تھے ۔ لہذا اہل اسلام کا اخلاقی فریضہ ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر صفائی و ستھرائی کا پورا لحاظ رکھیں ۔