شکریہ اے عید تیرے آنے کا ،بخت جاگاغریب خانے کا
ہمیں حاصل سعادت توحید ہوئی ، عید سے پہلے میری عید ہوئی
آج عید الاضحی ہے ۔ اقطائے عالم کے مسلمان مناسک حج کی تکمیل کے بعد عید کا اہتمام کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں عید ہوچکی ہے اور آج برصغیر ہند اور دیگر ممالک میں عید منائی جا رہی ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے عید قربان انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ جہاں حج کی تکمیل ہوتی ہے وہیں سنت ابراہیمی ؑ کی تکمیل میں قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے ۔ تاہم یہ بات ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قربانی کا جو پیغام ہے وہ محض جانوروں کو ذبح کرنے اور گوشت کی تقسیم تک محدود نہیں ہے ۔ ہمیں اس موقع پر اپنے آپ میں تبدیلی لانے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے غرور و تکبر کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ذاتی عناد و حسد اور بغض کو قربان کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم میں جو انسانی فطرت کے مطابق خامیاں ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے غصہ اور تکبر کو ‘ گھمنڈ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالی کی خوشنودی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم محض جانور ہی قربان نہیں کریں بلکہ اپنے ایسے اعمال کو بھی ترک کردیں جو اللہ تعالی اور مخلوق خدا کی ناراضگی کی وجہ بن رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلمان جن حالات کا شکار کردئے گئے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہم کو اپنے غرور و تکبر کو اور شخصی انا کو سب سے پہلے قربان کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں حدیث مبارکہ کا یہ مفہوم ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ذرا سا بھی تکبر رکھنے والا شخص جنت میں نہیں جاسکتا ۔ تکبر کو اللہ تعالی نے بہت زیادہ نا پسند کیا ہے اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺنے ہمیں اس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ ہمیںاپنے رشتہ داروں اور خاص طور پر اپنے والدین کے ساتھ اپنے رویہ کو بہتر اور درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج کل یہ بات عام ہوگئی ہے کہ ضعیف والدین نوجوان اولاد کی بدسلوکی کا شکار ہوتے جار ہے ہیں جبکہ عیدالاضحی والد کے حکم پر اللہ کی مرضی سے خود کو قربان کرنے کا پیغام دیتی ہے ۔ ہمیں اس کو سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
اسلام نے ہمیں اخوت و بھائی چارہ کا درس دیا ہے اور آج ہمارے اپنے بھائی فلسطین میںبے یار و مدد گار ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے ان کیلئے دعائیںکرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم جب تک اخوت اسلامی کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہیں بنائیں گے اس وقت تک دنیا بھر میں ہم پر مظالم ڈھائے جاتے رہیں گے ۔رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور دوست احباب سے حسن سلوک اور عجز و انکساری اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ہم اپنی انا کا شکار ہوتے ہوئے کئی رشتوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ مہمان نوازی ہمارا شعار ہے لیکن ہم اس سے بیزار نظر آتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرہ میں مہمان نوازی ختم ہوتی نظر آر ہی ہے ۔ ہمیں اس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ مہمان کی عزت و تکریم اور مہمان نوازی بھی ہماری اسلامی تعلیمات میں شامل ہے ۔ ہمیں سماج و معاشرہ کی بیواؤں اور یتیموں کی مدد اور داد رسی کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ہم اس سے بھی دور ہوگئے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعلقات کو استوار کرنے میں عجز و انکساری اختیار نہیں کی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کے تعلق سے دلوں میں حسد ‘ جلن ‘ بغص و کینہ پروری کا شکار ہیں ۔ ان تمام لعنوں کو بھی عیدالاضحی کے موقع رب تعالی شانہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے قربان کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم ایسا کرتے ہیں تب ہی ہماری قربانیاں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبولیت کا شرف حاصل کرسکتی ہیں۔ محض جانور قربان کرنا ایک رسم ہوسکتا ہے لیکن اصل مقصد پورا نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالی بے نیاز ہے ۔ اسے نہ قربانی کے جانور سے سروکار ہے اور نہ اس کے خون سے ۔ اسے اپنے بندوں کی نیتوں اور خلوص کا امتحان درکار ہوتا ہے ۔
آج عید قربان کے موقع پر ہمیں اپنے آپ سے عہد کرنا چاہئے کہ ہم نہ صرف جانور کی قربانی کریں گے بلکہ اپنے برے اعمال کو بھی ترک کریں گے ۔ ہمارے اندر جو برائیاں بتدریج سرائیت کرگئی ہیں ان کو ترک کریں گے ۔ اپنے والدین کو راضی کریں گے ۔ اپنے رشتہ داروں سے تعلقات استوار کرینگے ۔ پڑوسیوں سے اخلاق و کردار سے پیش آئیں گے ۔ سماج کے مجبوروں اور غریبوں کی داد رسی کیلئے آگے آئیں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تب ہی ہماری عید ہوگی اور ہم اس کے انعامات سے سرفراز ہوسکیں گے ۔