نمرہ صباحت
تمام تعریف اُس رب العٰلمین کے لئے زیبا ہے جو دونوں جہاں کا مالک ہے ۔ لاکھوں درود و سلام ہو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر ۔ اﷲ رب العزت کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اس ماحول میں بھی عیدالفطر اور عیدالاضحی سے مستفید ہونے کا موقع دیا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ نے خلیل کہا ہے ۔ خلیل یعنی دوست ۔ اﷲ کا دوست ۔ آپ ؑ کو خلیل اﷲ اس لئے کہا گیا کہ آپ اﷲ کی ہرآزمائش میں ، ہر امتحان میں پورے اُترے اور اﷲ کے ہر حکم کی تعمیل کی۔ حضرت ابراہیمؑ کی حیاتِ مبارک کے اولین حصہ سے ہی امتحانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آپ کی عمر کے طویل حصہ تک جاری رہا اور آپؑ اﷲ کے ہر امتحان میں کامیاب رہے ۔ آپ بچپن سے ہی بتوں کی پرستش سے پرہیز کیا کرتے تھے اور جب آپ جوانی کو پہنچے تو ایک مرتبہ جب سارے لوگ میلے میں گئے ہوئے تھے تو آپؑ بت خانہ میں جاکر وہاں کے سارے بتوں کو کلہاڑی سے توڑ دیئے اور پھر اس کلہاڑی کو وہاں کے سب سے بڑے بت کے گلے میں ڈال دیئے ۔ جب لوگ واپس آکر یہ منظر دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’یہ ہمارے ساتھ کس نے کیا؟‘‘ ۔ آپس میں کچھ بات کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ کام ضرور ابراھیم علیہ السلام نے کیا ہے، پھر اس معاملہ کو بادشاہ نمرود کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے ۔ دربارِ نمرود میں یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ آپؑ کو آگ میں ڈال دیا جائے ۔ آگ کا الاو تیار کیا گیا اور حضرت ابراھیمؑ کو آگ میں پھینک دیا گیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ : ’’اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراھیم پر‘‘ ۔ (انبیاء)
اس واقعہ کے بعد آپؑ اپنی بیوی حضرت سارہ ؑ اور بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ ہجرت فرمائی اور اردن ، شام اور فلسطین سے ہوتے ہوئے مصر پہنچے ۔ آپؑ نے لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف بلایا ۔ عذابِ آخرت سے ڈرایا ۔ مصر کا بادشاہ آپؑکی دعوت سے بہت متاثر ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلمان تو نہیں ہوا لیکن آپؑ کے پاکیزہ اخلاق اور دعوت کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ جب آپؑ وہاں سے چلے تو اس نے بہت سے تحفے پیش کئے اور اپنے خاندان کی ایک خوبصورت اور ذہین خاتون بھی نذر کردی۔ حضرت ابراھیم ؑ کو کوئی اولاد نہیں تھی ۔آپؑ بوڑھے ہوچکے تھے ۔ آپؑ نے اﷲ رب العزت سے دعا کی ’’ اے میرے رب مجھے صالح اولاد عطا فرما‘‘۔ اﷲ نے آپؑ کی دعا قبول کی اور خوشخبری فرمائی: ’’تو ہم نے اس کو ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی‘‘۔
حضرت ابراھیم ؑ کی ساری زندگی کا جائزہ لیں تو قربانی کا جذبہ ہردور میں نظر آئے گا ۔ وہ اﷲ کی خوشنودی کے لئے حق کی آواز بلند کرنے ہر امتحان میں کامیاب ہوئے ۔ عمر کے اس حصہ میں جس وقت اولاد کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے بھی راضی ہوگئے ۔ آپؑ کے نہ ہاتھ کاپنے اور نہ آپؑ کا عزم و حوصلہ میں کوئی کمی آئی ۔ آپؑ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی ۔ چھری حلقوم میں اسمعیل ؑ پر چلنے ہی والی تھی ۔ ماں باپ اور بیٹے تینوں کی اطاعت اور جذبہ قربانی کو اسی وقت اﷲ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا ۔ حضرت اسمعیل ؑ کو اﷲ تعالیٰ نے بچالیا اور آپؑ کی جگہ جنت سے ایک دنبہ بھیجا جو آپؑ کے عوض قربان کردیا گیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے ذبح عظیم قرار دیا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کو حضرت ابراھیم ؑ و اسمعیل ؑ اور بی بی ہاجرہؑ کی ادا اتنی پسند آئی کہ اﷲ نے بعد میں آنے والے تمام نبیوں کی اُمت پر سنت ابراھیمی کو استطاعت کی بنیاد پر واجب قرار کردیا ۔ معلوم ہوا کہ اﷲ کے حکم اور سنت ابراھیمی کا بظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ ، اخلاص اور محبت الٰہی کو پروان چڑھانا ہے ۔ قربانی کی قبولیت کا انحصار تقویٰ اور اخلاص پر ہے ۔
عیدالاضحی کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے اندر اسلام اور رضائے الٰہی کے لئے جذبہ ایثار پیدا کریں ۔ اس عید کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر دین و ایمان کی وہی کیفیت اور اﷲ و رسولؐ سے محبت پیدا ہو جس طرح حضرت ابراھیم ؑ نے اﷲ کے احکامات کی تکمیل کیلئے اپنا گھر ، بیوی اور بیٹے کو چھوڑنے سے بھی دریغ نہیں کیا اگر یہی جذبۂ ایمان و ایثار ہماری عملی زندگیوں کا حصہ بن جائے تو ان شاء اللہ رضائے الٰہی کا حصول اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی ۔