ملک بھر میں این آر سی اورا ب این پی آر کے علاوہ سی اے اے کے خلاف زبردست احتجاج چل رہا ہے ۔ ایسے میں حکومت اس احتجاج کو کسی نہ کسی طریقہ سے بلکہ طاقت کے استعمال سے روکنا چاہتی ہے ۔ عوام کی آواز اور ناراضگی کودبانا اور کچلنا چاہتی ہے ۔ احتجاج کے دوران تشدد نہ ہونے پائے اس کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ایک جمہوری ملک کے دستور میں عوام کو قانون و دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج کرنے اور درج کروانے کی پوری اجازت دی گئی ہے ۔ اس احتجاج کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ دہلی کی سڑکوں پر تشدد برپانے والی ’ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ کو سزا دینے اور کیفر کردار تک پہونچانے کا وقت آگیا ہے ۔ یہ در اصل حکومت کی منفی اور متعصب سوچ کو ظاہر کرنے والی بات ہے ۔ اگر احتجاج کرنا یا اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے تو یہ انتہائی نامناسب سوچ ہے ۔ کوئی ہندوستانی ایسا نہیں ہوسکتا جو ملک کو ٹکڑے کرنے یا تقسیم کرنے کی بات کرے ۔ اس کے برخلاف حکومت کے جو اقدامات ہیں اور حکومت کی جو پالیسیاں اور اس کے جو منصوبے ہیں وہ در اصل ملک میں نراج و نفاق اور اختلافات و نفرت کو ہوا دینے والے ہیں۔ اس سے قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے ۔ دوسروں پر الزام عائد کرتے ہوئے نشانہ بنانے کی بجائے حکومت کو اپنے منصوبوںاور ایجنڈہ پر نظر ثانی کرنے اور اپنے اقدامات و پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک حکومت دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی رہے گی چاہے ملک کے عوام اس کی کتنی ہی مخالفت نہ کریں ‘ اس طرح کے احتجاج کو روکنا ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ جو لوگ جمہوری انداز میں اور ملک کے دستور کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں اور حکومت کے فیصلوں کے خلاف آواز بلند کرتے تو انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دے کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری ہونے کے علاوہ اپنی انتہائی منفی سوچ کو ظاہر کر رہی ہے ۔ اس سے حکومت کے تعصب کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح سے سکیولر طاقتوں کے خلاف ایک ذہن رکھتی ہے ۔
حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعہ اور اپنے اقدامات کے ذریعہ سماج میں نفاق پیدا کر رہی ہے ۔ تین طلاق بل نافذ کرتے ہوئے حکومت نے سماج کے ایک اہم طبقہ میں بے چینی کی کیفیت پیدا کی ہے ۔ اب یکساں سیول کوڈ لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی سماج میں نفاق اور افرا تفری پیدا کرنے والا اقدام ہی ہے ۔ سی اے اے کے نفاذ کے ذریعہ بھی حکومت مسلمانوں کے خلاف منافرت اور تعصب کا ماحول آگے بڑھا رہی ہے ۔ حکومت کی ترجیحات کا اظہار ہو رہا ہے کہ وہ کس طرح اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو حاشیہ پر لانا چاہتی ہے ۔ اس کے علاوہ این آر سی لاگو کرنے کی بات ہو رہی ہے ۔ این آر سی کے ذریعہ بھی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنانا ‘ انہیں ہندوستان کی شہریت سے محروم کرنا یا پھر اس ملک میں جو بچ جائیں انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانا اور ان کے حقوق سلب کرنا چاہتی ہے ۔ اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ سماج میں نفاق اور نفرت کا ماحول خود حکومت اور برسر اقتدار جماعت کی جانب سے برپا کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح کے اقدامات ہیں جن کے نتیجہ میں آج سارے ملک میں بے چینی اور افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ جو عوام ایک دوسرے کے ستاھ کئی دہوں سے بلکہ آزادی سے پہلے سے مل جل کر رہا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کی عیدوں اور تہواروں کو مشترکہ منایا کرتے تھے آج وہ ایک دوسرے سے خوف کھانے لگے ہیں۔
یہی وہ ماحول ہے جس سے سماج ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے ۔ قوم بکھرنے لگی ہے ۔ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوکر رہ گئی ہے ۔ اسی حکومت دلتوں کو اعلی ذات والوں سے الگ دیکھتی ہے ۔ ان کیلئے دکھاوے کی ہمدردی کا اظہار تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر انہیں بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں آ رہی ہے ۔ حکومت کے منصوبوں میں یہ بھی شامل ہے کہ پہلے مسلمانوں سے نمٹ لیا جائے تو پھر دلتوں اور کمزور و پچھڑے ہوئے طبقات کو حاشیہ بردار بنانے میں کوئی زیادہ محنت کرنی نہیں پڑیگی ۔ یہ حکمت عملی در اصل ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی ہے ۔ جمہوری و دستوری دائرہ میں احتجاج کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دینا حکومت کی انتہائی منفی سوچ کا اظہار ہے اور اس سے تعصب اور منافرت کا اظہار ہوتا ہے ۔