لاس اینجلس کی آگ

   

رسم الفت کو نبھائیں تو نبھائیں کیسے
ہر طرف آگ ہے دامن کو بچائیں کیسے
دنیا جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے وہ انسانی عقل کو حیرت زدہ کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اس تیز رفتار ترقی کے دور میں انسان ‘ چاند پر قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ دوسری ایسی دنیا کی تلاش کی جا رہی ہے جہاں اب تک رسائی حاصل نہیں کی جاسکی ہے تاہم انسان ساری ترقی اور بے مثال کارنامے انجام دینے کے باوجود بھی بے بس ہی ہے اور یہی بات انسان کی سمجھ میں آنے سے قاصر ہے ۔ امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں جوبھیانک آگ لگی ہے وہ انتہائی تباہ کن ہے ۔ اس آگ میں جو تباہی مچائی ہے وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ کافی بڑے رقبہ پر یہ آگ پھیل گئی ہے اور اس پر قابو پانے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ۔ اس آگ کو بجھایا نہیں جاسکا ہے ۔ جنگلات کی آگ پھیلتے ہوئے شہری علاقوں تک پہونچ گئی اور کئی مشہور اور ذی اثر شخصیتوں کے مکانات بھی اس میں تباہ ہوگئے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کئی ایسی ہالی ووڈ شخصیتیں بھی اس آگ کی زد میں آئی ہیں اور ان کے مکانات تباہ ہوئے ہیں جنہوں نے غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام اور غزہ شہر کی تباہی کا جشن بھی منایا تھا ۔ یہ قدرت کی بے آواز لاٹھی ہی کہی جاسکتی ہے جس نے اس بھیانک آگ کے ذریعہ ان کے اپنے شان و شوکت والے محلات کو بھی پلک جھپکتے میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ دنیا میں کسی بھی خطے اور کسی بھی انسان پر مظالم یا آفت پر جشن یا خوشی منانا انسانیت کے مغائر اقدام ہے اور لاس اینجلس کی آگ پر بھی قابل افسوس ہے ۔ اس میں جو تباہی ہو رہی ہے وہ بھی افسوسناک ہے اور اس پر جتنا جلد ممکن ہوسکے قابو پایا جانا چاہئے ۔ امریکہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے اور یہ دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری منوانا چاہتا ہے ۔ دنیا بھر میں کئی ممالک اور کئی علاقے ایسے ہیں جہاں امریکہ نے تباہی مچائی ہے یا پھر تباہی مچانے والوں کی تائید و حمایت کی ہے اور ان کی سرپرستی کی ہے ۔ ایسے میں خود امریکہ کے شہر میں جو آگ لگی ہے وہ انسانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ انسان کی ترقی اور ٹکنالوجی قدرت کے آگے بے بس ہے اور اس بات کو انسان کو جلد سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ایک بڑا خطہ آگ کی لپیٹ میں آکر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ کچھ اموات بھی ہوئی ہیں۔ انسانی جانوں کا اتلاف سب سے بڑا نقصان ہے ۔ مالی نقصان بھی کچھ کم نہیں ہوا ہے اور یہ آگ کہاں جا کر تھمے گی یہ کہا نہیں جاسکتا ۔ اس آگ پر قابو جتنا جلد پایا جاسکے اتنا ہی نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ انتہائی ترقی یافتہ ملک میں اس طرح کی صورتحال اور بے بسی یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ قدرت کے آگے ہر شئے کمزور ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔ طاقت اور ترقی کے زعم میں انسان اپنی حیثیت کو فراموش کر بیٹھتا ہے اور ایسے دعوے کئے جاتے ہیں جن سے گریز کرنے ہی میں عافیت ہوتی ہے لیکن انسان اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور پھر قدرت جب اپنا آپ منوانے پر آتی ہے تو انسان بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے اور وہ کچھ بھی کرنے کے موقف میں نہیں رہ جاتا ۔ لاس اینجلس میں یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ آگ پر قابو پانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں جو ناکافی ہیں۔ اس بھیانک صورتحال میں بھی لوٹ مار جیسے واقعات بھی پیش آنے لگے ہیں جو انتہائی افسوس کی بات ہے کیونکہ یہ صورتحال ضرورت مندوں کی مدد کی متقاضی ہے اور مدد کرنے کی بجائے لوٹ مار کی جا رہی ہے جو سماج کے کھوکھلے پن اور مادہ پرستی کی بدترین مثال کہی جاسکتی ہے ۔ یہ انسانیت کو شرمسار کرنے والی حرکت ہے ۔ لوٹ مار کرنے والے افراد انسانیت کے نام پر ایک بد نما داغ کہے جاسکتے ہیں اور ان کا انسانوں میں شمار بھی نہیں کیا جانا چاہئے ۔
لاس اینجلس میںلگی آگ انتہائی افسوسناک ہے ۔ جو نقصان ہو رہا ہے وہ ناقابل تلافی بھی کہا جاسکتا ہے تاہم اس میں ایک درس ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی ترقی کرلے وہ قدرت کے آگے بے بس ہی ہے اور جتنا جلد ممکن ہوسکے اس کا اعتراف کرلے تو خود انسان اور انسانیت کیلئے بہتر ہوسکتا ہے ۔ اس آگ پر قابو پانے کیلئے تمام ممالک کو آگے آنے کی ضرورت ہے اور سب کو حتی المقدور کوشش کرتے ہوئے آگ کو مزید پھیلنے سے روکنے اور قیمتی جانوں کے اتلاف اور مال کی تباہی کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ یہی انسانیت کا تقاضہ ہے اور سبھی کو اس تقاضہ کو پورا کرنے آگے آنا چاہئے ۔