پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس و داخلہ
ایک روشن تارہ سمجھا گیا کہ شمالی آسمان سے لے کر پنجاب، اتراکھنڈ اور اترپردیش کو منور کرے گا اور جس کی گوا اور منی پور میں زبردست ستائش کی جائے گی۔ یہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں پر انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن جس روشن تارہ کی بات کی گئی وہ ایک بجھا ہوا تارہ نکلا کیونکہ اس کی چمک دیرپا ثابت نہیں ہوئی اور پھر 7 ، 8 جنوری کو چند گھنٹوں تک روشن ہونے کے بعد دن کے ختم ہونے سے پہلے ہی وہ اور اس کی روشنی کہیں غائب ہوگئی۔ 7 جنوری کو این ایس او کی فرسٹ اڈوانسڈ اسٹیمیٹس (FAE) برائے قومی آمدنی 2021-22ء پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی گئی، اس سلسلے میں حکومت نے ایک صحافتی اعلامیہ جاری کیا اور اس پریس ریلیز کا مرکزی موضوع 9.2% کا عدد تھا۔ این ایس او نے مالی سال 2021-22ء کیلئے متعین کی گئی قدروں کے تخمینہ، جی ڈی پی نمو (قومی مجموعی پیداوار کی نمو) پر روشنی ڈالی اور اس نے قومی مجموعی پیداوار برائے سال 2021-22ء کا جو تخمینہ پیش کیا، وہ 9.2% ہے جو 2020-21ء کے (-7.3%) کے متضاد ہے۔ سرکاری ترجمانوں کے مطابق ہم 2020-21ء میں معاشی نمو کو درپیش بحران سے باہر نکل آئیں گے اور جیسا کہ 2019-20ء میں شرح نمو تقریباً 1.9% ریکارڈ کی گئی۔ اگر سرکاری ترجمانوں کا یہ بیان اور اعداد و شمار صحیح ثابت ہوتے ہیں تو میں سب سے زیادہ خوش ہونے والا شخص رہوں گا۔ (عالمی بینک نے جو تخمینہ لگایا ہے، وہ 8.3% ہے) افسوس کہ جی ڈی پی کو لے کر جو جشن منایا جارہا تھا، وہ قبل از وقت ہوگا، کیونکہ 2019-20ء میں مقررہ قدروں پر جو قومی مجموعی پیداوار تھا، وہ 145,69,268 کروڑ روپئے تھا۔ سال 2020-21ء میں کورونا وائرس کی عالمی وباء کے نتیجہ میں ہماری قومی مجموعی پیداوار گر کر 135,12,740 کروڑ روپئے ہوگئی۔ یہ صرف اسی وقت ہوا جب جی ڈی پی 2019-20ء کے اعداد کو پار کرگئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قومی مجموعی پیداوار میں گراوٹ پر قابو پالیا گیا؟ اور کیا ہم اسی مقام پر پہنچ گئے ہیں جو 2019-20ء کے اواخر میں ہمارا مقام تھا۔ این ایس او کے مطابق 2021-22ء میں حکومت کی خواہش کے مطابق نتائج برآمد ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
آیئے! فرسٹ اڈوانسڈ اسٹیمیٹ کا ہم قریب سے جائزہ لیتے ہیں۔ این ایس او کے مطابق ہماری قومی مجموعی پیداوار (145,69,268کروڑ روپئے) میں زیادہ سے زیادہ 1,84,267 کروڑ روپئے جیسی چھوٹی رقم تک اضافہ ہوگا یا 1.26% تک اضافہ ریکارڈ کیا جائے گا اور اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ قابل لحاظ رقم نہیں ہے۔ اگر ہمارے اقتصادی عمل میں سے کوئی بھی چیز غلط ہوجائے تو پھر جس زائد آؤٹ پٹ کا اندازہ مقرر کیا گیا ہے، وہ غائب ہوجائے گا۔ اس صورت میں سب سے اچھا ہے، جس کی ہم امید کرسکتے ہیں، خاص طور پر مالی 2021-22ء میں وہ مقررہ قدروں پر قومی مجموعی پیداوار مساوی ہوگی اور 145,69,268 کروڑ روپئے سے کم نہیں ہوگی۔ اس نمبر کے حصول کا مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستانی معیشت کی آؤٹ پٹ کی سطح دو سال بعد بھی اسی طرح رہے گی جس طرح وہ سال 2019-20ء میں رہی۔ اس کیلئے کورونا وائرس کی وباء اور ناقص معاشی مینجمنٹ اور حکومت کی نااہلی ذمہ دار ہیں۔ ہندوستان کچھ سال قبل دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کہلانے کے قابل تھا، لیکن فی الوقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہندوستان دنیا کی تیز رفتاری سے بڑھنے والی معیشت ہوگی، کیونکہ ہماری قومی مجموعی پیداوار یا جی ڈی پی بڑی تیزی سے گر چکی ہے اور دو برسوں کے دوران ہندوستانی معیشت -7.3% اور +9.2% نمو دیکھے گی۔ اس طرح ہماری جی ڈی پی چت ہوگئی ہے۔ چین نے اپنی معیشت کا جو تخمینہ مقرر کر رکھا ہے، اس کی شرح +2.3% اور +8.5% ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسے ملک کی معیشت فروغ پائی ہے اور کونسا ملک صرف بیجا فخر کررہا ہے۔
این ایس او کے اعداد و شمار واضح طور پر یہ بتاتے ہیں کہ سال 2020-21ء میں اوسط ہندوستانی غریب ترین رہا اور مالی سال 2021-22ء میں بھی وہ غریب ہی رہے گا۔ خاص طور پر مالی سال 2019-20ء کی بہ نسبت ۔ویسے بھی ہندوستانی شہری چاہے وہ مرد ہو یا عورت جو خرچ کیا ہے، اور دو سال سے کم عرصہ میں جو خرچ کریں گے، وہ 2019-20ء میں کئے گئے خرچ سے کم ہوگا۔ اگر پچھلے تین برسوں کے دوران فی کس اوسط آمدنی اور فی کس اوسط استعمال اور مصارف کا مقررہ قدروں پر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سال 2019-20ء میں فی کس اوسط آمدنی ایک لاکھ 8 ہزار 645 روپئے رہی اور فی کس اوسط مصارف 62 ہزار 56 روپئے رہے۔ اسی طرح مالی سال 2020-21ء میں فی کس اوسط آمدنی 99,694 روپئے اور فی کس اوسط مصارف 55,783 روپئے رہی۔ اسی طرح سال 2021-22ء میں فی کس اوسط آمدنی ایک لاکھ 7 ہزار 801 روپئے بتائی گئی ہے جبکہ اسی سال کے فی کس اوسط مصارف 59,043 روپئے بتائی گئی ہے۔ معیشت کیلئے فکرمند کرنے والے مزید اشاریہ بھی موجود تھے۔ حکومت معاشی ترقی یا معاشی نمو کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے لیکن مالی سال 2020-21ء میں گورنمنٹ فائنل کیپیٹل ایکسپنڈیچر (جی ایف سی ای) صرف 45,003 کروڑ روپئے زیادہ رہے پچھلے سال کی بہ نسبت ۔ اسی طرح مالی سال 2021-22ء یہ پچھلے مالی سال کی بنسبت صرف ایک لاکھ 20 ہزار 562 کروڑ روپئے زیادہ ہوگی۔ حالیہ عرصہ کے دوران سرمایہ کاری کے فیصد میں بھی کمی آئی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کئی ایک مسائل بالخصوص مہنگائی کو لے کر پریشان ہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ کورونا وباء اور کورونا کے نئے اقسام نے اس تشویش میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکمرانوں کو عوام کے حقیقی مسائل اور ان کی تشویش کی کوئی پرواہ نہیں۔ ان لوگوں نے انتخابی جنگ لڑنے کیلئے الگ طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ سڑکوں پر سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ حکمران اس بات کا بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ 80%، 20% سے لڑیں گے۔ یہ لوگ ہر روز ایک نئے نعرہ کی تخلیق کررہے ہیں، بہرحال یہ کہنا کہ ہندوستان تیزی سے بڑھتی معیشت ہے ،حقیقت سے بعید بات ہے۔