دیکھتے دیکھتے منظر ہی بدل جاتے ہیں
کیا زمانے کی ہے رفتار خدا خیر کرے
لاک ڈاون اور پولیس کا رویہ
سارے ہندوستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون ہے ۔ تمام تجارتی و تعلیمی ادارے ‘ شاپنگ مالس اور سنیما گھر ‘ کمپنیوں اور صنعتوں کو بند کردیا گیا ہے ۔ عوام کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے ۔ عوام بھی سارے ملک میںاس ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود ملک کے وزیر اعظم بھی یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کے عوام لاک ڈاون پر عمل کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم کچھ معاملات میں پولیس کا رویہ انتہائی نامناسب ہونے لگا ہے ۔ خاص طور پر حیدرآباد میں ‘ جہاں پولیس فرینڈلی کمیونٹی پولیسنگ کا دعوی کرتی ہے اور ریاستی حکومت بھی پولیس کو بارہا یہ ہدایت دیتی ہے کہ فرینڈلی پولیسینگ کی جائے ‘ پولیس کا رویہ ظالمانہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جو واقعات اب تک سامنے آئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں اعلی پولیس عہدیدار عوام میں پولیس کی شبیہہ کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں وہیں کیڈر میں اعلی حکام کے احکام کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے اور وہ اپنی بھڑاس عوام پر نکال رہے ہیں۔ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ حاصل کرنے والے پولیس ملازمین ‘ عوام ہی کے ساتھ انتہائی ناشائستہ اور نازیبا زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔ بے دردی سے لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ خواتین کا تک کوئی لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ انہیں بھی بدزبانی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ سر عام ان کو گالیاں بکی جا رہی ہیں ۔ انہیں گاڑیوں سے اتار کر پیدل روانہ کیا جا رہا ہے ۔ کئی خواتین ایسی بھی رہی ہیں جو دواخانوں سے رجوع ہوکر گھر واپس ہو رہی تھیں یا پھر دواخانہ جا رہی تھیں۔ ان میں حاملہ خواتین بھی تھیں ‘ جو معمول کے چیک اپ کیلئے دواخانوں سے رجوع ہو رہی تھیں ‘ سٹی پولیس نے انہیں بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا اور ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی اور گالی گلوچ کی گئی ۔ اسی طرح ایک واقعہ میں ایک شخص کو جو اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا پولیس جوانوں نے لاٹھیوں سے اس قدر پیٹا کا اس کے پیر میں فریکچر ہوگیا ۔ نوجوان تو ایسالگتا ہے کہ پولیس کیلئے تختہ مشق بن گئے ہیں اور پولیس عملہ اپنی ساری بھڑاس لاٹھیوں کے ذریعہ ان پر نکال رہا ہے ۔
حکومت کی جانب سے روزمرہ کی ضروری اشیا کی خریداری کیلئے عوام کو اجازت دی گئی ہے ۔ راشن کی دوکانیں ‘ ترکاری ‘ گوشت ‘ ادویات ‘ دودھ وغیرہ کے حصول کا موقع دیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود پولیس عوام کو ان ضروری اشیا کی خریدی سے بھی روکنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ دوکانیں قبل از وقت بند کروائی جا رہی ہیں۔ جو معمولی ٹھیلہ بنڈی والے کاروبار کرتے ہیں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اشد ضرورت کے تحت جو لوگ گھروں سے نکل رہے ہیں انہیں بھی مارپیٹ کی جا رہی ہے ۔ یہ ساری کارروائیاں فرینڈلی پولیسنگ کے زمرہ میں ہرگز نہیں آتیں بلکہ یہ ظالمانہ کارروائیاں ہیں جبکہ خود اعلی پولیس عہدیدار اپنے عملہ کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ غریب عوام پر لاٹھیوں کا استعمال نہ کریں۔ جو زبان پولیس عملہ استعمال کر رہا ہے وہ انتہائی ناشائستہ ہے ۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اعلی عہدیدار خاموشی اختیار کر رہے ہیں اور اسی خاموشی سے سڑکوں پر موجود پولیس عملہ کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور وہ اور بھی بے خوف ہوکر اپنی زبان اور لاٹھی دونوں کا بے تحاشہ استعمال کر رہے ہیں۔ عوام میں ایسا خوف پیدا کیا جا رہا ہے جیسا کہ یہ کوئی عوامی بہتری کیلئے لاگو لاک ڈاون نہیں بلکہ باضابطہ کرفیو ہے ۔ جو تحدیدات عائد کی گئی ہیں وہ خود عوام کی بہتری کیلئے ہیں اور عوام ان پابندیوں کا احترام بھی کر رہے ہیں لیکن پولیس کے رویہ نے سارے ماحول کو خراب کردیا ہے ۔
پولیس عملہ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ایک ماہ سے زیادہ وقت سے لوگ گھروں میں بند ہیں۔ ان کی آمدنی بند ہوگئی ہے ۔ معصوم بچے بھوک سے پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑوں کا حال بھی ان سے مختلف نہیں ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی فرد اپنے اہل و عیال کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بحالت مجبوری گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کی تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ پولیس ان مجبور لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی نیک نامی میں اضافہ کرسکتی ہے لیکن اس کی بجائے گالی گلوچ کی جا رہی ہے جیسے کسی انتہائی خطرناک مجرم سے سامنا ہوگیا ہو ۔ بے تحاشہ لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اعلی پولیس عہدیداروں کو صرف زبانی اپیل کرنے کی بجائے تادیبی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نچلی سطح پر کام کرنے والے پولیس عملہ کو بھی اپنی حدوں کا خیال رہے اور عوام میں بھی اعتماد بحال ہوسکے ۔