کورونا وائرس کی وجہ سے اجتماعی عبادات متاثر ہوئی اور نت نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس وباء کی وجہ سے رمضان المبارک میں نماز تراویح تو کجا نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ سے احتیاط کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں رمضان المبارک کے آخری دہے میں اعتکاف جیسی عظیم سنت کے اہتمام کے بارے میں سوالات اور اشکالات اُبھر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ دارالافتاء جامعہ نظامیہ کے فتوے کی روشنی میں کورونا وائرس کی بناء لاک ڈاؤن کی صورتحال کے سبب آخری دہے میں سنت اعتکاف کو ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت اور ماہرین صحت عامہ کی ہدایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے محلہ کی مسجد میں کم سے کم ایک مسلمان کے اعتکاف بیٹھنے سے سنت اعتکاف کی تکمیل ہوگی اور سارے اہل محلہ بری الذمہ ہوں گے۔ نیز مرد حضرات کے لئے گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کی گنجائش نہیں اور نہ اس سے مسنون اعتکاف ادا ہوگا کیوں کہ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے ایسی مسجد میں اعتکاف بیٹھنا ضروری ہے جہاں پنجگانہ نماز کے لئے اذان ہوتی ہے اور باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ رمضان المبارک کا مقصود یہی ہے کہ بندہ کے دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہو اور تقویٰ کا حصول ہی بعثت کا اہم مقصد، اسلام کی روح اور تصوف کی جان ہے۔ تقویٰ انسان کو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ عبادت کی کثرت کے ساتھ ان چار بنیادی چیزوں کا اہتمام کرتا ہے جو مجاہدہ کے اہم ستون اور اساسی رکن سمجھے جاتے ہیں۔ (۱) قلت طعام (۲) قلت کلام (۳) قلت نوم (۴) قلت اختلاط (مخلوق سے کم ملنا)۔ اسلام کی تمام مشروع عبادتوں پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اعتکاف ہی ایسی جامع عبادت ہے جس میں یہ تمام چیزیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
حدیث شریف کی ہر کتاب اعتکاف کے ثبوت اور اس کے فضائل سے لبریز ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تادم زیست رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اس پر کاربند رہیں اور اعتکاف کا اہتمام کیں۔
امام زہریؒ لوگوں پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ کیسے اعتکاف جیسی عظیم عبادت چھوڑ دیتے ہیں جب کہ نبی کریم ﷺ ابتداً کبھی اس کا اہتمام فرماتے اور کبھی ترک فرماتے لیکن آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سے وفات تک کبھی ترک نہیں فرمایا۔ (بدائع الصنائع)
بخاری شریف اور دیگر کتب صحاح کی روایتوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اعتکاف اُمت محمدیہ ﷺ اور دین اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ اس کا اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے : حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور پاک ﷺ سے عرض کیا کہ میں زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر کیا تھا۔ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اپنی نذر پوری کرو۔ ایک اور روایت میں حضور پاک ﷺ نے حضرت عمرؓ کو اعتکاف کے ساتھ روزہ رکھنے کا حکم فرمایا (عمدۃ القاری) مزید برآں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بناء کعبہ کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکام ملے تھے اس میں یہ حکم بھی ہے کہ بیت اللہ شریف کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں کے لئے پاک رکھیں (سورۃ البقرہ) اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف کا تصور اور حکم زمانۂ قدیم ہی سے چلا آرہا ہے۔
اعتکاف ایسی عبادت ہے جو جلوت و خلوت کے تمام منافع و فوائد کی جامع اور دونوں کے مفاسد سے پاک ہے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کا نفس مغلوب ہوتا ہے اور وقت کی حفاظت ہوتی ہے اور یہی دو چیزیں صوفیاء کرام کا مقصود و مطلوب ہیں۔ جیسا کہ امام شافعیؒ کے اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ میں صوفیہ کی صحبت میں دس برس رہا اور اتنے طویل عرصہ میں میں نے ان سے صرف دو ہی چیزیں حاصل کیں (۱) نفس پر نگاہ رکھنا (۲)وقت کی حفاظت کرنا۔
اعتکاف میں انسان روزہ رکھتا ہے، بھوک و پیاس اور ترک خواہشات کی وجہ سے اس کا نفس کمزور و ناتواں ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں مسجد کی نورانی فضاء اور عبادات و طاعات کے روحانی ماحول کے سبب نفس اپنے دسیسہ کاریوں اور مکر و فریب سے عاجز آجاتا ہے۔ نیز قلت اختلاط اور عوام سے کم ربط و ضبط کی وجہ اپنے قیمتی اوقات کی حفاظت اور اس سے صحیح استفادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اعتکاف کے بے شمار عظیم فائدے ہیں جیسے معتکف کو نماز کے فوری بعد دوسری نماز کے انتظار کا ثواب ملتا ہے۔ نماز باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ملتی ہے، نگاہ نامحرم عورت کو دیکھنے سے محفوظ رہتی ہے، کان غیبت اور فحش کلام کے سننے سے محفوظ رہتے ہیں اور زبان کثرت کلام اور فحش گوئی سے محفوظ رہتی ہے۔ بزرگ اور نیک لوگوں سے نماز کے اوقات میں ملاقات ہوتی ہے، ان کے اعمال اور ریاضت کو دیکھ کر تواضع اور فروتنی پیدا ہوتی ہے اور اس میں شہرت کے شر سے بچتا ہے جو گوشہ نشینی سے حاصل ہوتی ہے، شب بیداری کے ذریعہ تلاش شب قدر کا بھی ثواب ملتا ہے۔