وزیراعظم کی روانگی کے بعد بڑے سیاسی قائدین کے درمیان خرید وفروخت کے حوالے سے تین منظر سامنے ائے ہیں
بیروت‘ لبنان۔ نئے نگران کار وزیراعظم سعاد حریری کے حالیہ استعفیٰ کے ساتھ ہی غیرمعمولی احتجاج کی وجہہ سے لبنان ایک ساسی بدحواسی کے دائرے میں شامل ہوگیا جہاں پر حزب اور اور ا س کے ساتھیوں میں تقسیم دیکھائی دے رہی ہے۔
منگل کے روز حریری نے یہ کہتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کردیا کہ وہ ہی لبنانی عوام کے تیرہ دنوں سے احتجاج کے ذمہ دار ہیں جو تیرہ دنوں سے سڑکوں پر اتر پر بڑا احتجاج کررہے ہیں جس کو انہوں نے ملک کے اعترافی سیاسی نظام کا خاتمہ اور بدعنوان سیاسی قائدین کی جوابدہی کانام دیاہے۔
احتجاجی چاہتے ہیں کہ نگرانی کار حکومت کو آزاد ماہرین کی کابینہ پر تبدیل کیاجائے جو لبنان کو سنگین معاشی بحران سے نکال سکیں گے‘ برقی اور پانی جیسی بنیادی ضرورت کی حفاظت کریں گے اور نیا غیر فرقہ وارانہ انتخابی قانون بنائیں گے۔
سڑکوں پرجولوگ اترے ہیں ان میں سے زیادہ لوگ چاہتے ہیں وہ حریری کو دوبارہ نہ دیکھیں‘ مذکورہ 49سالہ کو متعدد سیاسی گروپوں اور بین الاقوامی حمایت حاصل ہونے کی وجہہ سے اگلی حکومت کی تشکیل میں ترجیحی امیدوار مانا جارہا ہے۔
اور وہیں انہوں نے دیکھا کہ پچھلے سال کے الیکشن میں ایک تہائی کمی ان کے پارلیمنٹری بلاک میں ائی ہے‘ حریری اب بھی لبنان میں ایک بڑے سنی لیڈر کی طور پرمقبول ہے‘ جو اس ملک کی اہمیت بھی ہے جس کا وزیراعظم سنی ہونا ضروری ہے‘ اسپیکر شیعہ اور صدر کا عیسائی ہونا لازمی ہے۔
سینئر سیاسی لیڈر مروان حمدہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ”میں جہاں تک سمجھتاہوں یہ صاف ہوگیا ہے کہ اگلے حکومت کی قیادت حریری ہی کریں گے‘
مگر یہ ایک ہی قسم کی حکومت نہیں ہوسکتی اسی صاف ستھرا‘ کچھ حد تک سیاسی اور مزید پیشہ وارانہ ہونا چاہئے“۔ حمدہ طویل مدت سے حریری کے ساتھ ہیں اور پروگریسو سوشلسٹ پارٹی(پی ایس پی) کے بلاک میں وہ موجودہ رکن پارلیمنٹ بھی ہیں‘ جس کی قیادت دریوزی لیڈر ولید جوبلات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ”ہر گروپ اپنے زوایے سے کوشش میں لگاہوا ہے‘ حزب اللہ اور(لبنانی صدر مائیکل)اون سے اس کی شروعات ہوئی ہے‘ لہذا ہم نتیجے پر پہنچے اور لبنان کو شدیدمعاشی بحران سے بچانے اصلاحات کی شروعات کررہے ہیں تاکہ احتجاج کرنے والے لوگوں کومطمئن کیاجاسکے“۔
حریری کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیاجب انہوں نے کہاکہ پارٹیوں سے نئی حکومت کے قدوخال کی تشکیل میں عمل میں لانے کے لئے با ت چیت ناکام ہوگئی ہے۔
حسن نصر اللہ جو شیعہ گروپ حزب اللہ کے لیڈر ہیں حکومت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی مخالفت کی ہے‘ وہیں اون زوردیے ہیں کہ ان کے داماد خارجی منسٹر گبران بسالیل کو مقرر کیاجائے جو متنازعہ شخصیت اور احتجاجی کے نشانے پر ہیں وہ اب بھی اس کاحصہ باقی ہے۔
عہدے کے لئے زیادہ اراکین پارلیمنٹ کی حمایت کی بنیاد پر مذکورہ صدر وزیر اعظم کاتعین کرتا ہے تاکہ وہ نئی حکومت کی تشکیل عمل میں لائے۔ جملہ128نشستوں کے ایوان میں نصف درج پر کنٹرول ضروری ہے