آپ سے ترکِ تعلق ہمیں منظور نہیں
ہم مزاج اپنا بہت سوچ سمجھ کر بدلے
ہندوستان میں ہمیشہ سے کچھ مفادات حاصلہ اور فرقہ پرست جنون پسندوں کی جانب سے اختلافی اور نزاعی مسائل کو ہوا دینے اور ہندو ۔ مسلم خلیج کو بڑھاوا دینے کے منصوبوں پر عمل کیا جاتا رہا ہے ۔ کبھی کوئی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی کسی مسئلے کو ہوا دی جاتی ہے ۔ کبھی بیف کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو کبھی حجاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی کسی کی داڑھی سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو کبھی مسلم دوکانداروں کے بائیکاٹ کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسی طرح لوو جہاد بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو اکثر و بیشتر کسی نہ کسی موقع پر موضوع بحث بنایا جاتا رہتا ہے ۔ مختلف ریاستیں ایسی ہیں جہاں اس طرح کے نزاعی مسائل پر سیاست کو ہمیشہ مرکزی مقام دیا جاتا ہے تاکہ مسائل اور ان کی تکالیف سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے ۔ کبھی مہنگائی پر اظہار خیال نہیں کیا جاتا ۔ کبھی بیروزگاری دور کرنے کے منصوبوں کو عوام میں پیش نہیں کیا جاتا ۔ چیف منسٹر آسام خاص طور پر اشتعال انگیزی کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں چیف منسٹر اترپردیش آدتیہ ناتھ کے جانشین بنتے جا رہے ہیں۔ اب انہوں نے ایک بیان دیا ہے کہ ریاست میں بہت جلد لوو جہاد کے خلاف قانون سازی کی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو سزائے عمر قید دی جائے گی ۔ یہ کسی بھی ریاست کا اور حکمرانوں کا اختیار ہے کہ وہ کسی معاملے کو بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کریں۔ اگرانہیںضرورت محسوس ہوتی ہے کہ لوو جہاد کو روکنے قانون سازی کرنی چاہئے تو وہ ایسا کرسکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لوو جہاد کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف ملک بھر میں منظم انداز میں ریورس لوو جہاد چلایا جا رہا ہے ۔ کچھ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے باضابطہ فنڈنگ کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو پھانسا جا رہا ہے ۔ انہیں محبت کے جال میں پھانس کرشادیاں کی جا رہی ہیں۔ انہیں مرتد کیا جا رہا ہے اور کچھ عرصہ بعد انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا جا رہا ہے ۔ ملک میں اس طرح کی سازشوں اور منظم مہم کے خلاف قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسی سازشیں رچنے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو جیل بھیجا جانا چاہئے ۔
کئی تنظیمیں اور ادارے منظم انداز میں کام کرتے ہوئے مسلم لڑکیوں اور خواتین کا استحصال کر رہے ہیں۔ انہیں نشانہ بنانے کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کئے جا رہے ہیں ۔نوجوانوں کو اس کیلئے ترغیب دی جا رہی ہے ۔ انہیںسہولیات فراہم کی جا رہی ہیںاور ان کی سرپرستی کی جا رہی ہے تاکہ وہ اس مقصد کو آگے بڑھا سکیں۔ یہ کسی مذہب کے خلاف سازش کرنے کے مترادف ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کسی قانون سازی کی کسی کو ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ لوو جہاد نام کی کوئی شئے ہے ہی نہیں۔ اس کے باوجود اس کو ایک بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور اس پر سیاسی روٹیاںسینکی جا رہی ہیں۔ در اصل یہ شبہات تقویت پا رہے ہیں کہ لووجہاد کا فرضی پروپگنڈہ کرتے ہوئے اصل سازش سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور اداروںکو گمراہ کیا جاسکے ۔ جہاں تک ملک کے قوانین اور دستوری حقوق کی بات ہے تو ملک کا قانون اور دستور ہر بالغ مرد و عورت کو اس معاملے میں مکمل آزادی فراہم کرتا ہے کہ وہ جس سے چاہیں شادی کریں ۔ ان پر دباؤ بنانے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔ تاہم ایک منظم انداز میں سازش تیار کرتے ہوئے کسی مذہب کی خواتین اور لڑکیوںکو نشانہ بنانے کی بھی کسی کو اجازت نہیںدی جاسکتی ۔ ایسا کرنے والے در اصل ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں اس کیلئے باضابطہ ملازمت کے انداز میں ترغیب دی جا رہی ہے جو زیادہ تشویش کی بات ہے ۔
ملک کے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی ریاستوں اور ملک کے عوام کی بہتری اور فلاح پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ساری توانائیاں نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے پر صرف کی جانی چاہئے ۔ ان کے ذہنوں پراگندہ کرنے کی مہم سے سب کو دور رہنا چاہئے ۔ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمہ پر حکمرانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکمران اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنے اقتدار کا تحفظ کرنے کیلئے سماج میںنفرت اور دوریاںپیدا کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں ۔ اس روش کو بدلنا چاہئے اور عوام کو بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہئے ۔