ایوان میںمسلسل ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے بعد لوک سبھا کے سشن کو آج اچانک ہی ختم کردیا گیا ۔ یہ سشن جمعہ تک چلنا تھا لیکن اس کو اچانک ہی ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ۔ حالانکہ حکومت نے یہ کہا تھا کہ سشن کو جلد ختم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن آج اچانک سشن کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ۔ اسپیکر اوم برلا نے سشن کے اختتام کے بعد تمام قائدین کا اجلاس طلب کیا اور مستقبل میں ایوان کے کام کاج میںتعاون کرنے کی خواہش کی ۔ یہ اجلاس در اصل بہت پہلے ہونا چاہئے تھا اور ایک مشترکہ ایجنڈہ ایوان کو چلانے کیلئے طئے کیا جانا چاہئے تھا تاکہ ایوان کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد آئندہ اجلاس میں تعاون کی اپیل کرنا در اصل عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا کا مانسون سشن پوری طرح سے ضائع کردیا گیا ۔ اپوزیشن کی جانب سے جہاں عوام کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل مسائل کو اٹھانے کی کوشش کی گئی وہیں حکومت کی جانب سے اہم سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا گیا ۔ حکومت نے کسی بھی اہم سوال پر ایوان میں کوئی بیان نہیں دیا اور خاموشی سے اپنے ایجنڈہ کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ایوان میں کسی طرح کے مباحث کے بغیر بلوں کو منظور کروانے پر ہی حکومت نے توجہ دی جبکہ پارلیمنٹ کا کام صرف بلز کو منظور کرنا ہی نہیںہے بلکہ ملک و قوم کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل پر مباحث کرنا پارلیمنٹ کا اصل کام ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے پیگاسیس جاسوسی مسئلہ ‘ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے مسئلہ اور زرعی قوانین جیسے اہمیت کے حامل مسائل پر ایوان میں مباحث کا مطالبہ کیا گیا ۔ یہ تینوں ہی مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر حکومت کو جواب دینے کی ضرورت تھی ۔ عوام کے ذہنوںمیں جو سوالات ہیں اور جو شبہات پیدا ہوئے ہیں ان کو دور کیا جانا چاہئے تھا لیکن حکومت نے ایسا کرنے سے گریز کیا اور جواب دینے سے فرار اختیار کی ہے ۔ حکومت کا فریضہ تھا کہ وہ ایوان میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دے لیکن مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیںسمجھتی ۔ وہ اکثریت کے زعم میں مبتلا ہے ۔
جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ایک ماہ طویل مانسون سشن میں ایوان میںمحض 22 گھنٹے کام ہوا ہے اور یہاں کارکردگی کا تناسب بھی صرف 22 فیصد ہی رہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے جس میں حکومت کسی بھی بات کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ نہ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنا چاہتی ہے اور نہ اپوزیشن کے حقوق کو خاطر میں لارہی ہے ۔ وہ محض اکثریت کے بل پر حکومت اور ایوان چلانا چاہتی ہے ۔ یہ ہندوستان کی روایت کبھی نہیں رہی ہے ۔ ہندوستان میں ہمیشہ ہی اپوزیشن کی رائے کا احترام دیا گیا ہے ۔ فیصلہ سازی اور حکمرانی کے عمل میں اپوزیشن کی تجاویز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے جگہ دی گئی ہے ۔ اپوزیشن کے سوالات دینا حکومتوں کیلئے واجبی رہا ہے اور ابھی تک تمام ہی حکومتوں نے اپوزیشن کے عزت و وقار پر کوئی آنچ نہیںآنے دی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت ملک سے کانگریس ہی نہیں بلکہ ساری اپوزیشن جماعتوںکا خاتمہ کرنا چاہتی ہے ۔ وہ ان کے اختیارات کو اور حقوق کو قبول ہی نہیں کر رہی ہے ۔ اپوزیشن کے وجود ہی سے حکومت نالاں دکھائی دیتی ہے ۔ کسی کی کوئی تجویز حکومت کیلئے قابل قبول نہیں رہ گئی ہے ۔ کسی کی رائے کا احترام کرنا اس حکومت کا وطیرہ ہی نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے میں ملک کی جمہوریت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جمہوریت کی افادیت اور اس کی اہمیت ختم ہوسکتی ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں اس تعلق سے نت نئے اندیشے پیدا ہوسکتے ہیں اور لوگوں کا جمہوریت پر سے یقین بھی ختم ہونے لگ سکتا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک ماہ طویل مانسون اجلاس کے دوران اہمیت کے حامل مسائل پر سیرحاصل مباحث کئے جاتے ۔ اپوزیشن کی رائے لی جاتی ۔ قابل قبول تجاویز کو قبول کیا جاتا اور مستقبل کے مسائل و چیلنجس سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی جاتی ۔ ایک ماہ طویل سشن میںنہ تو پیگاسیس جیسے سنگین اسکام پر مباحث ہوئے اور نہ ہی فیول قیمتوں پر حکومت نے کوئی وضاحت کی ۔ نہ تو زرعی قوانین پر کوئی مباحث ہوئے اور نہ ہی کورونا بحران کی صورتحال پر کوئی اظہار خیال کیا گیا ۔ بحیثیت مجموعی لوک سبھا کے ایک ماہ طویل سشن کو ضائع کردیا گیا اور حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر اڑی رہی ۔ حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی اور لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
