لوگوں کے عیوب و کوتاہیوں سے چشم پوشی

   

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! زیادہ گمان سے بچا کرو، بے شک بعض گمان گناہ ہیں اور (کسی کے رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو اور (ان تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا ہے‘‘۔ (سورۃالحجرات۔۴۹؍۱۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسروں کے پوشیدہ احوال اور خفیہ معاملات کے تجسس کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے تجسس یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمانوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ نہ لگاؤ، کیونکہ جو دوسروں کے معاملات کی ٹوہ لگاتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیوب ظاہر کردیتا ہے اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کرتا ہے، اسے دوسروں کے سامنے رسوا کردیتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
ایک مرتبہ آپﷺ اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص دروازے کے درازوں سے اندر جھانکنے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیرا ناس ہو، اجازت مانگنے کا حکم آنکھوں کے لئے ہی تو ہے‘‘۔ (مسلم)

قرآن مجید میں جابجا دوسروں کی کوتاہیوں سے چشم پوشی اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور آپﷺ ہمیشہ دوسروں کے عیوب سے چشم پوشی فرماتے اور اسی کا دوسروں کو حکم فرماتے۔ آپﷺ کا فرمان ہے: ’’جو کوئی کسی مسلمان کے عیب کو دیکھ کر چشم پوشی کرتا ہے، وہ گویا کسی زندہ دفن کی جانے والی بچی کو زندگی بخشتا ہے‘‘ (ابوداؤد) مزید فرمایا: ’’جو کسی مسلمان کے عیب سے چشم پوشی کرے گا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
بعض صحابہ کرام سے بسااوقات کچھ تقصیر ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مکمل طورپر چشم پوشی اور درگزر کا معاملہ فرمایا۔ مثال کے طورپر فتح مکہ کے موقع پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالی عنہ کا دشمنوں کے نام جب خط پکڑا گیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا سر قلم کرنے کا مشورہ دیا، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول کرکے انھیں معاف فرمادیا (البخاری)
اس کے علاوہ غزوۂ احد اور غزوۂ حنین میں کچھ صحابہ کرام اپنے مقامات سے ہٹ گئے تھے، جو کہ ایک سخت ترین مسئلہ تھا، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عفو و درگزر کا نہ صرف معاملہ فرمایا، بلکہ انھیں آئندہ دور میں تمام معاملات میں شریک بھی رکھا۔

اسی طرح رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن ابی سلول کی طرف سے جو بظاہر اسلام کا اظہار کرتا تھا اور حقیقت میں اس نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت منظم سازشیں رچی تھیں۔ ان مواقع پر صحابہ کرام کا یہ مشورہ تھا کہ اس کو نفاق کے جرم میں قتل کردیا جائے، مگر آپﷺ نے ہمیشہ چشم پوشی اور درگزر کا برتاؤ فرمایا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’سچا مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے اس کے مسلمان بھائی محفوظ رہیں‘‘ (البخاری) اسی بناء پر اگر کسی شخص میں موجود کسی خامی کا ذکر کرنا ہوتا تو آپﷺ اس شخص کا نام ذکر نہ فرماتے، البتہ اس طرح فرماتے: ’’لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ کہتے ہیں‘‘۔ (ابوداؤد)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالی کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے، جس کی برائی کے ڈر سے لوگ اسے چھوڑدیں‘‘۔
(البخاری)
ایک مجلس میں ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور حضرت ابوبکرؓ خاموش تھے، لیکن جب وہ حد سے بڑھا تو حضرت ابوبکر ؓنے اس کو جواب دیا۔ یہ دیکھ کر آپﷺ مجلس سے اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے وجہ دریافت کی تو آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے تمہاری طرف سے جواب دینے پر ایک فرشتہ مامور تھا، مگر جب تم نے جواب دیا تو وہ چلا گیا اور اس کی جگہ شیطان نے لے لی، اور میں کسی ایسی مجلس میں نہیں ٹھہر سکتا جہاں شیطان ہو‘‘۔ (ابوداؤد)
ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابی رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو ’’حبشی خاتون کا بیٹا کہہ دیا‘‘۔ آپﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا: ’’اے ابوذر! ابھی تم میں جاہلیت کی خو باقی ہے‘‘ اور پھر انھیں معاملہ صاف کرنے کا حکم فرمایا۔ (ابوداؤد)

لوگوں کی دل آزاری سے آپﷺ کس قدر گریز فرماتے تھے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’اگر تین آدمی کسی مجلس میں ہوں تو ان میں سے دو الگ ہوکر باہم سرگوشی نہ کریں کہ اس سے تیسرے آدمی کا دل دکھے گا‘‘۔ (مسلم)
اسی طرح آپﷺ دو گفتگو کرنے والے افراد کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر بیٹھنے سے منع فرماتے تھے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے‘‘۔ غیبت سے دوسروں کی دل شکنی ہوتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چغلخور کبھی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا‘‘۔ (البخاری)
ایک موقع پر آپﷺ نے غیبت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’کسی کا اس انداز سے پس پشت ذکر کرنا کہ اگر وہ سنے تو ناپسند کرے‘‘ یہی غیبت ہے۔