لڑکھڑاتی معیشت پر توجہ کیوں نہیں

   

اُدھر سے موت بھی ہوکر کبھی گذرتی ہے
سُکونِ دردِ محبت کو آپ کیا جانیں
لڑکھڑاتی معیشت پر توجہ کیوں نہیں
ملک کی معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہوگئی ہے اور یہ ایک طرح سے آئی سی یو میں پہونچ گئی ہے۔ مرکزی حکومت معیشت کو مستحکم بنانے پر توجہ کرنے کی بجائے دوسرے متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے ہوئے عوام کو اِن میں اُلجھاکر رکھنا چاہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے ایک حکمت عملی کے تحت متنازعہ مسائل کو ہوا دی ہے تاکہ ملک کے عوام ملک کی بگڑتی ہوئی اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت پر توجہ دینے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔ آج ملک کا ہر فکرمند طبقہ ملک کی معیشت کے تعلق سے تشویش کا شکار ہے۔ ہر گوشے سے معیشت کی سست روی پر فکر ظاہر کی جارہی ہے لیکن حکومت ایسا لگتا ہے کہ اس تعلق سے اپنی آنکھیں اور کان بند کرچکی ہے اور وہ اس پر نہ کسی کی بات سننا چاہتی ہے اور نہ ہی وہ مارکٹ کے حالات دیکھنا چاہتی ہے۔ حکومت کے سابق معاشی مشیر اروند سبرامنین نے بھی یہ واضح کردیا ہے کہ ہندوستان کو حد درجہ کی معاشی سست روی کا سامنا ہے اور معیشت ایک طرح سے آئی سی یو میں پہونچ گئی ہے۔ فوری طور پر معیشت کو سدھارنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو پھر معیشت کا حال اور بھی بُرا ہوسکتا ہے۔ ایک طرح سے ہندوستان کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ ہر گوشے سے تشویش کے اظہار کے باوجود حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ معاشی میدان میں جو پیشرفت ہورہی ہے وہ اچھی ہے اور توقعات کے مطابق ہے۔ اس انتہائی سست روی کے باوجود حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی معیشت پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کی معاشی جڑیں انتہائی مضبوطی کی حامل تھیں لیکن این ڈی اے حکومت کی معاشی پالیسیوں نے انتہائی مضر اثرات اس معیشت پر مرتب کئے ہیں جس کے نتیجہ میں معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار کی شرح مسلسل گراوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس شرح میں اضافہ کی بجائے انحطاط ہی درج کیا جارہا ہے۔ حکومت تمام اعداد و شمار کو جھٹلانے میں لگی ہوئی ہے حالانکہ یہ اعداد و شمار انتہائی معتبر اور قابل بھروسہ اداروں کی جانب سے جاری کئے جاتے ہیں۔ ان ہی اداروں کے اعداد و شمار کو حکومتیں اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں۔
آج ملک بھر میں جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ بے روزگاری کی شرح کئی برسوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ نئے روزگار دستیاب نہیں ہیں اور جو روزگار پہلے سے موجود ہیں وہ بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن کی پیداوار میں انتہائی کمی درج کی گئی ہے۔ کچھ شعبہ جات تو بند ہوگئے ہیں اور کئی دیگر شعبہ جات ایسے ہیں جو بند ہونے کے قریب پہونچ گئے ہیں۔ کئی صنعتیں انتہائی کم نشوونما کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری بینکوں کا حال انتہائی بُرا ہوگیا ہے اور حکومت ان بینکوں کی حالت کو سدھارنے کے بجائے انھیں ایک دوسرے میں ضم کرنے کو ہی مسئلہ کا حل سمجھنے لگی ہے۔ آٹو موبائیل کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ معمولی سے اُلٹ پھیر کے ساتھ اعداد و شمار کا کھیل کھیلتے ہوئے حکومت صورتحال کی سنگینی کو قبول کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ صنعتی گوشوں کی جانب سے بھی معاشی صورتحال کی ابتری کی باتیں سامنے آئی ہیں اور بارہا حکومت کو اس جانب توجہ دلائی جارہی ہے لیکن حکومت اس کو بھی قبول کرنے تیار نہیں ہے۔ آئندہ مہینوں میں ترقی کے جو تخمینے تیار کئے گئے ہیں ان کی شرح کو مسلسل کم کیا جارہا ہے۔ نہ صرف ہندوستان کے اندرونی اداروں نے بلکہ بین الاقوامی قابل اعتبار اداروں نے بھی ہندوستان کی معاشی پیشرفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تمام گوشوں اور شعبہ جات کی پیش قیاسیوں اور تشویش کو حکومت بالکل مسترد کرتی جارہی ہے اور اس کو قبول نہیں کیا جارہا ہے۔
معاشی میدان کی انتہائی تشویشناک صورتحال کو قبول کرنے کے بجائے اس سے انکار کرنا حکومت کا وطیرہ بن گیا ہے اور جس طرح کے اندیشے ہیں وہ درست ہی کہے جاسکتے ہیں کہہ حکومت معاشی میدان کی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ملک میں متنازعہ مسائل کو ہوا دینے میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت اگر واقعی ملک کی معیشت کو سدھارنے کی متمنی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ متنازعہ مسائل کو برفدان کی نذر کردے اور معاشی میدان میں حالات کو بہتر بنانے اور ملک کے عوام کو راحت پہونچانے پر توجہ دے۔ اختلافی اور متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے ہوئے حکومت وقتی طور پر تو مسائل سے توجہ ہٹاسکتی ہے لیکن معیشت کو مزید بگاڑ سے بچانا ممکن نہیں رہ جائے گا۔
اکثریت کا گھمنڈ افسوسناک
مرکز کی این ڈی اے حکومت اپنی دوسری میعاد میں کسی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اکثریت کے گھمنڈ میں آگئی ہے اور وہ ملک کے عوام کی بات سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ حکومت محض اقتدار کے نشہ میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے۔ حکومت کی ترجیحات متنازعہ مسائل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ صرف اپنے نفاق کے ایجنڈہ پر عمل کرنے میں مصروف ہے اور اس میں کسی کو بھی خاطر میں لانے تیار نہیں ہے۔ حکومت لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپنی اکثریت کے گھمنڈ میں متنازعہ قوانین کی تیاری اور ان پر عمل آوری میں مصروف ہوگئی ہے۔ حالانکہ کئی ایسے بل موجود ہیں جن کو قانون کی شکل دی جانی ہے لیکن حکومت ان پر توجہ دینے تیار نہیں ہے۔ خواتین تحفظات بِل اس کی ایک مثال ہے۔ لوک پال بل بھی حکومت کی توجہ کا طالب ہے لیکن حکومت ان پر توجہ دینے تیار نہیں۔ یہ دونوں بل کئی برسوں سے پارلیمنٹ میں زیرالتواء ہیں۔ حکومت خواتین سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف سنجیدگی سے اقدامات کررہی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ان دونوں اہم ترین مسائل پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ اگر حکومت چاہے تو دوسرے متنازعہ بلوں کی طرح انھیں بھی منظور کرواسکتی ہے لیکن حکومت ایسا کرنا ہی نہیں چاہتی جس سے ان دونوں اہمیت کے حامل مسائل پر حکومت کی سنجیدگی پر ہی سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ حکومت کو اپنے اقتدار اور اکثریت کے گھمنڈ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جو صورتحال ملک میں درپیش ہے اس کو بہتر بنانے پر حکومت کو توجہ دینا چاہئے تاکہ اس کے جو دعوے ہیں اور اس کی جو ترجیحات ہیں ان میں یکسانیت پیدا ہوسکے۔