لڑکیوں سے حسنِ سلوک کی ترغیب

   

آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عنایت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عنایت کرتا ہے،۔ اللہ بیٹے اور بیٹیاں دونوں قسم کی اولاد دیتا ہے، بے شک وہ جاننے والا قدرت والا ہے، پھر بچی کی پیدائش پر ناک منہ چڑھانے کی کیا ضرورت، انسان کی خام عقلی ہے رحمت کو زحمت تصور کرتے ہیں، اگر یہ لڑکیاں بڑھ کر عورت نہ بنیں اور شادیاں نہ ہوتو بتائے یہ بچے یہ تنومند جوان کہاں سے آئیں۔
حضرت مریم ؑکی والدہ نے جب منت مانی توقع کے خلاف لڑکے کی جگہ بچی پیدا ہوئی تو حسرت سے کہنے لگیں مجھے لڑکی عنایت ہوئی۔ رب العالمین نے اُم مریم کی یہ حسرت بھری آواز سنی تو فرمایا اس کو اللہ تعالیٰ زیادہ جانتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا، لڑکا اس لڑکی کے برابر نہیں ہوسکتا تھا۔
خیر و برکت لڑکی سے حاصل ہوگی لڑکے سے نہیں تھا۔
مریم ؑ کا وجود ام مریم کے لئے اور دنیا کی فلاح و نجات کے لئے کتنا مبارک ثابت ہوا، انہیں مریم ؑ سے عیسیٰ ؑ نے جنم لیا اور دنیا کو حق کا پیغام سنایا۔ اسلام نے عورت کو اس کا صحیح مقام عطا کیا۔ جہاں موقع ہوتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہیکہ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ قیامت میں میرے ساتھ ہوگا۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی وہ اپنے ساتھ دو لڑکیوں کو لائی تھی وہ غریب تھی میرے پاس اس وقت صرف ایک چھوارا تھا وہ اُس عورت کو دے دی۔ اس نے اُس چھوارا کے دو حصے کئے اور آدھا آدھا اُن بچیوں کو دے دی اور وہ کچھ نہیں کھائی اور چلے گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے یہ واقعہ آپ ؐسے بیان کیا۔ یہ سن کر آپ ؐفرماتے ہیں جو ان لڑکیوں کے لئے تکلیف اٹھایا ہے اور اچھا سلوک کرتا ہے اُن کے لئے یہ لڑکیاں دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ایک اور واقعہ بیان کرتی ہیں، ایک غریب عورت آئی اس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں ۔ اس مرتبہ میں نے اس عورت کو تین کھجور دیئے ماں نے ایک ایک کھجور دونوں لڑکیوں کو دیا اور تیسرا خود کھانے کے لئے اٹھائی منہ کے قریب لاچکی تھی کہ دونوں بچیوں نے پھر مانگا، عورت خود نہ کھائی اُس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور آدھا آدھا دنوں لڑکیوں کو دے دیا اور خود نہیں کھائی۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں مجھ کو ماں کی ممتا بہت پسند آئی، جب رسول اکرم ؐ تشریف لائے یہ اثر انگیز قصہ آپ ؐ سے بیان کی، آپ نے فرمایا ان لڑکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُس عورت کے لئے جنت واجب کردی اور اِن بچیوں کی وجہ سے دوزح سے آزاد کردیا۔ اللہ اکبر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو کمزوروں کے حقوق کی تاکید کرتا ہوں ایک یتیم کی دوسرے عورت کی۔ سماج میں وہی مقام اُن کو دلایا جائے جس کی قدرتی طور پر عورتوں کی صنف نازک مستحق ہیں۔ جاہلیت کے دور میں ایک جگہ لکھا ہے باپ نے اپنی بچی کو بلایا وہ پیاری ہنستی دوڑتی باپ کے پاس آئی وہ اور باپ ایک کنویں کے پاس پہنچے باپ نے ہاتھ پکڑ کر کنویں میں ڈھکیل دیا اور وہ لڑکی آواز دیتے رہی، میرے ابا میرے ابا وہ بس لڑکی آخری تک پکارتی رہی۔ آہ۔ یہ سنکر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہوگئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں ہی کے نہیں بلکہ عورتوں کے بھی پیغمبر اور رسول ہیں۔ آپ مردوں ہی کے لئے نہیں روتے تھے بلکہ عورتوں کی مظلومیت بھی آپ کو رلاتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے ماں (عورت) کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا اور اس کی محبت جو اولاد کے ساتھ ہوتی ہے اس کو ذہن نشین فرمالیں۔
کئی احادیث مبارکہ میں ماں کی غیر معمولی احترام و تکریم پر زور دیا گیا۔ اللہ پاک سے دعا گو ہوں، بیٹیاں نصیبے والی ہوں، بیٹیوں کے لئے میٹھے بول ہوں، بچپن کی خوشیاں ماں کے روپ میں نصیب ہوں۔ آمین۔
٭٭٭٭٭