آج کے اس ترقی یافتہ دور میں معاشرے کے ہر گھر میں لڑکیوں کی تعلیم زیادہ ضروری ہے کسی ملک کی معیشت تب تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام نہ کریں۔ اسلام نے انہیں پورا حق دیا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بھی لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلواتے کہ گھر بار ہی سنبھالتا ہے۔ اگر ماں پڑھی ہو گی تو بچوں کی نفسیات سے آشنا ہوگی اور سمجھے گی کہ بچے کو وقت کے مطابق کھیلنا چاہئے اور وقت پر پڑھنا چاہئے ، جس گھر میں ماں پڑھی لکھی ہوگی وہی گھر جنت کا نمونہ ہوگا۔ عورتوں کی تعلیم جس میں دین و مذہب، اخلاق و کردار کی اصلاح شامل ہوتی ہے جس میں عورت حقوق و فرائض کو پہچان سکے۔ بچّوں کی تربیت میں سلیقہ مندی سے کام لے سکیں۔ پرانے زمانے میں عورتوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ جوں جوں زمانہ بدلتا گیا عورتوں کی تعلیم پر زور دیا گیا کیونکہ عورت اپنے بچّوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے وہ آگے بڑھ کر قوم کی تخلیق کو ایک نئی شناخت دیتی ہے۔ کسی بھی بچّے کا مستقبل اس کی والدہ کی طرف سے دیئے گئے پیار اور پرورش پر منحصر ہوتا ہے جو صرف ایک عورت ہی کرسکتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو اولاد بھی صاحب علم اور مہذب ہوگی کیونکہ بچّے کا زیادہ تر وقت ماں کے قریب گزرتا ہے اس لئے پڑھی لکھی ماں بچّے کے خیالات کو نکھار سکتی ہے، اپنے حقوق و فرائض سے باقاعدہ آگاہ ہوتی ہے اور بچّہ تہذیب یافتہ ماحول میں ڈھل کر مدرسہ جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ عورت اپنے خاندان کی معاشی حالت کو سدھارنے کیلئے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے اور صرف اپنے بچوں کی ہی نہیں بلکہ آس پاس کے بہت سارے لوگوں کی زندگیوں کو بھی تبدیل کرسکتی ہے اور ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک عورت اپنی زندگی میں بہت سے رشتے نبھاتی ہے۔ مثلاً ماں، بیٹی، بہن، بیوی… کسی بھی رشتہ میں آنے سے پہلے عورت ملک کی آزاد شہری ہے اسے اپنی خواہش کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے تاکہ وہ اپنے پسندیدہ شعبہ میں کام کرسکے۔ تعلیم خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور انہیں خود پر انحصار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ تعلیم نہ صرف معاشرے میں خواتین کا معیار بلند کرتی ہے بلکہ معاشرے کی تنگ سوچ کو بھی ختم کرتی ہے۔ تعلیم نسواں کے بغیر ہم ترقی یافتہ سماج کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ خواتین کے ذریعہ ہمارا معاشرہ، مہذب اور بااخلاق اور باسلیقہ ہوتا ہے اس لئے اسلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم پر زور دیا ہے۔ عزیزوں میں سے کسی خاتون نے اعلی تعلیم حاصل کی ہوگی تو بات بات پر جتایا جائے گا کہ فلاں پڑھ لکھ کر اتنی اچھی نوکری کر رہی ہے اور مالی معاملات میں ہاتھ بٹارہی ہے۔ بچے بھی نہایت تمیز والے ہیں۔ یہ سب سن کر لڑکی تو اپنے گھر والوں کو صرف بھلا برا کہہ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اگر لڑکی پڑھی لکھی ہوئی تو خاوند کو بھی اس پر فخر ہوتا ، دوست رشتہ دار سب عزت کرتے اور بچے بھی نہایت مہذب ہوتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہیکہ’’ تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ‘‘ کیا ہم اس ارشاد پر عمل کر رہے ہیں ؟ صرف لڑکوں کو تعلیم دلوا کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا ، مگر فرض تب تک پورا نہیں ہوتا جب تک لڑکیوں کو تعلیم نہ دلوائی جائے۔ لڑکیوں کا بھی تعلیم پر اتنا حق ہے جتنا لڑکوں کا۔ میں معاشرے کی سبھی عورتوں سے گذارش کرتی ہوں کہ وہ اپنی لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنائیں تاکہ آگے چل کر وہ ہر حالات کا مقابلہ کر سکیںاور ساتھ ہی ساتھ ملازمت کی خواہاں خواتین محض اپنی اعلی تعلیم کے بل بوتے پر باوقار عہدوں پر کام کرسکتی ہیں۔
٭ ٭ ٭