محمد مظہر حسین ورنگلی
حضور اکرم ﷺنے لڑکیوں کی پیدائش کو مبارک اور ان کی تربیت و شادی کی ذمہ داری سے سبکدوشی پر جنت کی بشارت دی ہے۔ لیکن جیسے جیسے لڑکی سن بلوغ کو پہنچتی ہے تو والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون لٹ جاتا ہے،جب کافی دوڑ دھوپ کے بعد لڑکی کی شادی طے پاتی ہے اور پھر اس غریب کی برسوں کی خون پسینہ کی کمائی جوڑے کی رقم اور جہیز کی تکمیل میں شادی کی نذر ہوجاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ معیشت کی تباہی کا یہ سلسلہ برسوں چلتا رہتا ہے، مثال کے طورپر پہلا بلاوا، آخری جمعگی، پہلی عید وغیرہ، جس میں کپڑے، سلامی اور دعوت کے نام پر کثیر رقم کا صرفہ برداشت کرنا پڑتا ہے اور پھر جب داماد صاحب ایک عدد بچے کے باپ بنتے ہیں تو دوا خانہ کے جملہ اخراجات اور چھلہ چَھٹی کے نام پر فضول تقاریب کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک لڑکی کی پیدائش سے لے کر، پھر اس لڑکی کے اولاد ہونے تک ایک باپ کو ہولناک پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان باتوں پر غور کیجئے!
٭ کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی کی عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے لڑکی کے والدین سے بڑی بڑی رقمیں اور قیمتی جہیز طلب کیا جائے؟۔٭ کیا لڑکی کا باپ ہونا کوئی گناہ ہے؟ جس کا کفارہ نقد اور جہیز کی صورت میں لازماً ادا کرنا پڑے؟۔
یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک باپ مفت خدمات انجام دینے کے لئے اپنی بیٹی بھی دے اور ساتھ میں موٹی رقم اور قیمتی سامان بھی دے!۔ افسوس ہے ایسے نوجوانوں پر، جو لڑکی کے والدین سے مال اور جہیز کے طلبگار ہیں۔ تف ہے ان کی جوانی و مردانگی پر، جو لڑکی کے والدین کی رقم پر نہ صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، بلکہ سسرال سے مانگی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھیں اتنا بھی احساس نہیں کہ انھوں نے جن قیمتی اشیاء اور جوڑے کی رقم کو جہیز کے نام پر حاصل کیا ہے، اس کے لئے کسی کو اپنے گھر جائیداد سے محروم ہونا پڑا ہوگا یا پھر سودی قرض کے ناسور کو گلے لگانا پڑا ہوگا۔
افسوس کہ اللہ تعالی نے جس امت کو دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور انصاف کے بول بالا کی ذمہ داری سونپی ہے، وہی آج ظالم بنی ہوئی ہے۔ یہ کم نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اپنے خیر امت ہونے کو فراموش کرچکے ہیں، بلکہ اپنے اعمال فاسدہ کے ذریعہ اسلام کی شبیہ کو داغدار اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو پامال کر رہے ہیں، جس کا خمیازہ یقیناً روز آخرت بھگتنا پڑے گا۔