یاد آتا ہے کہ پہلے بھی ملے تھے آپ ہم
یاد کیجئے کیا نہیں ہیں جانے پہچانے سے ہم
مرکزی حکومت نے سیول سروسیس میں لیٹرل انٹری کے اشتہار سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ اس سلسلہ میں یو پی ایس سی کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ لیٹرل انٹری سے متعلق درخواستیں طلب کرنے جو اشتہار جاری کیا گیا تھا اس سے دستبرداری اختیار کرلی جائے ۔ اس معاملے میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی تنقید اور ان کی جانب سے اس کو مسئلہ بنائے جانے اور مختلف گوشوں میں بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے آخر کار یہ فیصلہ کرلیا ہے اور یو پی ایس سی کو ضروری احکام بھی جاری کردئے گئے ہیں۔ ہندوستان میں افسر شاہی یا بیورو کریسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ ہمیشہ سے کیڈر عہدیداروں سے ہی چلائی جاتی رہی ہے ۔ انتظامی امور میں آئی اے ایس اور پولیس امور میں آئی پی ایس کے علاوہ بیرونی خدمات میں آئی ایف ایس عہدیداروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان کے تقررات کئے جاتے ہیں۔ سینیاریٹی اور تجربہ کی اساس پر ان کی ترقی ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی اور مہارت کو دیکھتے ہوئے اعلی عہدوں پر تعیناتی کی جاتی ہے ۔ انہیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حکومتیں تو پالیسی کی تیاری کیلئے پہل کرتی ہیں اور سارا کام افسرشاہی یا بیوروکریسی کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے ۔ پالیسی امور کو قطعیت دیتے ہوئے کئی امور کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور حکومت کی ترجیحات اور پالیسی کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ حکومتیں عوام کے ووٹ کے ذریعہ قائم ہوتی ہیں اور انہیں کے ووٹ کے ذریعہ تبدیل بھی ہوجاتی ہیں۔ عہدیدار اپنے شعبہ میں کام کرتے رہتے ہیں اور ان کی خدمات سے عوام مستفید ہوتے ہیں۔ تاہم اب اچانک ہی نریندر مودی حکومت نے کچھ اہم وزارتوں میں ذمہ داریوں کیلئے کیڈر سے باہر کے افراد کو متعین کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اس کیلئے اخبارات میںاشتہارات جاری کرتے ہوئے درخواستیں بھی طلب کی گئی تھیں۔ جو کام آئی اے ایس عہدیداروں کو کرناہوتا ہے اس کیلئے غیر آئی اے ایس افراد کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ تھا اور مہارت کو شرط قرار دیا گیا تھا ۔
دعوی کیا جا رہا ہے کہ انتظامی اصلاحات کمیشن نے اس سلسلہ میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں ہی سفارش پیش کی تھی ۔ تاہم منموہن سنگھ حکومت نے کبھی لیٹرل انٹری کیلئے درخواستیں طلب نہیں کی تھیں۔ خود نریندر مودی حکومت نے اپنی دو سابقہ معیادوں میں بھی اس طرح کی کوئی پہل نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی طرح کا اشتہار جاری کرتے ہوئے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ اب اچانک ہی اس اشتہار کی اجرائی پر قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے شدید اعتراض جتایا تھا ۔ راہول گاندھی نے اس مسئلہ کو پسماندہ طبقات کے حقوق سلب کرنے اور تحفظات کو ختم کرنے کی سمت پہل قرار دیا تھا جس کے بعد بی جے پی کیلئے صورتحال پیچیدہ اور غیریقینی ہوگئی تھی ۔ راہول گاندھی اور کانگریس کی جانب سے پارلیمانی انتخابات سے قبل دستور کو خطرہ ہونے کا مسئلہ عوام سے رجوع کیا گیا تھا اور بی جے پی کو احساس ہے کہ اسی وجہ سے وہ مرکز میں اپنے بل پر اقتدار حاصل نہیں کرسکی ہے ۔ اب بھی ہریانہ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری ہوچکا ہے ۔ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں بی جے پی پسماندہ طبقات کو مزید ناراض کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔شائد یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ نریندر مودی حکومت نے لیٹرل انٹری سے متعلق اشتہار سے دستبرداری اخؒیار کرلینے کی یونین پبلک سرویس کمیشن کو ہدایت دی ہے ۔ اس طرح بی جے پی سیاسی نقصان سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے
کچھ گوشوں سے یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جا رہے تھے کہ لیٹرل انٹری کے نام پر بی جے پی اور مرکزی حکومت انتہائی اہمیت کے حامل شعبوں میں اور اہم عہدوں پر اپنے ہم خیال افراد کو متعین کرسکتی ہے اور جو دباؤ آئی اے ایس عہدیداروں پر نہیں بنایا جاسکتا وہ دباؤ غیر آئی اے ایس عہدیداروں پر بناتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ تاہم راہول گاندھی کی لگاتار شدید تنقید کے بعد اب حکومت نے لیٹرل انٹری کے مسئلہ کو فی الحال ترک کردینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تاہم اس کے عزائم اور منصوبوں کے تعلق سے چوکسی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں بھی ایسا کرنے کا حکومت کو موقع ملنے نہ پائے ۔