سکون نہیں ہے زمانہ میں انتشار تو ہے
ہمارے قبضہ میں کچھ بھی ہو اقتدار تو ہے
ملک بھر میں انتخابات کا عمل اب اپنے اختتامی مراحل میں پہونچ چکا ہے ۔ محض ایک مرحلہ کی انتخابی مہم چل رہی ہے وہ بھی دو دن میں ختم ہوجائے گی اور یکم جون کو آخری مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے دوران پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے ۔ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی گئی ۔ بی جے پی کی جانب سے ملک میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرتے ہوئے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی گئی ۔ وزیر اعظم کی سطح سے نچلی سطح کے قائدین تک سبھی نے انتخابی مہم میں مسائل پر بات کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے گریز ہی کیا ہے ۔ سبھی نے ہندو ۔ مسلم کی سیاست کو ترجیح دی جبکہ کانگریس نے انتخابات میں مسائل کو اجاگر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا ۔ سات مراحل کی رائے دہی میں چھ مراحل تکمیل کو پہونچ چکے ہیں اور آخری مرحلہ میں چند اہم نشستوں پر ووٹ ڈالے جانے باقی ہیں جن میں وزیر اعظم مودی کا حلقہ انتخاب وارناسی بھی شامل ہے ۔ اسی طرح مغربی بنگال کی کچھ نشستیں ہیں ‘ بہار اور پنجاب میں بھی ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ چونکہ گرما گرم انتخابی مہم رہی تھی سبھی پارٹیاں اپنے اپنے نتائج کے تعلق سے پر امید ہیں۔ بی جے پی لگاتار 400 پار کا نعرہ دے رہی ہے حالانکہ آثار و قرائن سے یہ نعرہ حقیقت میں تبدیل ہونے کے امکانات بالکل نظر نہیں آتے ۔ اسی طرح کانگریس زیر قیادت انڈیا اتحاد اپنے انتخابی امکانات کے تعلق سے پرامید ہے ۔ علاقائی جماعتوں کو بھی اس بار اپنی کارکردگی میں مزید بہتری کی امید دکھائی دے رہی ہے ۔ اسی وجہ سے انڈیا اتحاد کی جماعتوں نے عملا رائے دہی کی تکمیل کے بعد کے حالات سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ انڈیا اتحاد کی جماعتوں کے قائدین کا ایک اجلاس آخری مرحلہ کی رائے دہی کے دن یعنی یکم جون کو ہوسکتا ہے ۔ امکانی نتائج اور اس سے متعلقہ صورتحال پر اجلاس میں غور و خوض کیا جاسکتا ہے ۔ یہ اجلاس مابعد انتخابی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریوں کا نقطہ آغاز ہوگا ۔
بی جے پی بھلے ہی اب کی بار 400 پار کا نعرہ دے رہی ہے لیکن خود بی جے پی قائدین کو اس تعلق سے یقین نہیں ہے ۔مختلف گوشوں کی رائے اس معاملے میں مختلف ہے ۔ کئی گوشے یہ بھی دعوی کر رہے ہیںکہ بی جے پی کیلئے 272 کے جادوئی ہندسہ تک پہونچنا بھی آسان نہیں رہے گا ۔ بمشکل تمام اگر این ڈی اے اتحاد اجتماعی طور پر اقتدار حاصل کرتا ہے تب بھی وزیر اعظم کی دعویداری بڑھ جائے گی ۔ کئی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو بی جے پی کے ساتھ محض ڈر و خوف کی وجہ سے ہیں ۔ کئی جماعتیں چاہتی ہیں کہ این ڈی اے اتحاد کو اقتدار نہ ملنے پائے ۔ کچھ جماعتیں جو نہ این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہیں اور نہ انڈیا اتحاد کا وہ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں اہم رول نبھانے کی تیاریاں اپنے طور پر شرو ع کرچکی ہیں۔ کئی جماعتوں میں مابعد انتخابی صورتحال پر تبادلہ خیال بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ مختلف گوشے اس بات کی حمایت کرتے بھی نظر آئے ہیں کہ اگرا ین ڈی اے اتحاد کو اقتدار مل بھی جائے تو وزارت عظمی کیلئے نریندر مودی سب کیلئے قابل قبول نہیں ہونگے ۔ بی جے پی میں راج ناتھ سنگھ اور نتن گڈکری کے نام اس سلسلہ میں لئے جا رہے کہ مقابلہ کی صورت میں یہ دو اہم دعویدار ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں انڈیا اتحاد کی جماعتوں کیلئے قبل از وقت حکمت عملی کی تیاری اور صورتحال سے نمٹنے کا منصوبہ تیار رکھنا ضروری ہے ۔ جس طرح سے حالات پیدا ہونگے اس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی فیصلے بھی کرنے پڑسکتے ہیں اور اس کیلئے سبھی کو تیار رہنا چاہئے ۔
جہاں تک مابعد انتخابی صورتحال میں کسی بھی اتحاد کیلئے دوسری جماعتوں کی تائید کی اگر ضرورت پڑتی ہے تو اس کیلئے انڈیا اتحاد کو زیادہ سرگرمی دکھانے اور چوکس رہنے کی ضرورت ہوگی ۔ جو جماعتیں اب انڈیا اتحاد کے ساتھ ہیں ان کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے بھی منصوبہ تیار رکھنا ہوگا اور ضرورت پڑنے پر این ڈی اے اتحاد میں شامل جماعتوں کو انڈیا اتحاد کا حصہ بنانے کیلئے بھی بات چیت کرنی ہوگی ۔ تمام قائدین کو انتخابی مہم کے اختتام کے بعد اس معاملے میں زیادہ سرگرم ہوجانے کی ضرورت ہے تاکہ معمولی سی بھی غفلت نہ ہونے پائے اور اس کا فائدہ اٹھانے کا بی جے پی یا اس کے قائدین کو کوئی موقع نہ ملنے پائے ۔