ماب لنچنگ انسانیت پر بدنما داغ

   

آج مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے، ان کی جان کی کوئی وقعت نہیں ہے، ان کی آبرو کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ان کی معیشت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان پر ظلم و زیادتی کا کسی کو احساس نہیں ہے۔ احترام انسانیت کے بلند باگ دعوے کرنے والے گہری نیند سورہے ہیں ۔ تہذیب و تمدن پر فخر و ناز کرنے والی دنیا سب سے زیادہ قتل و خون کی مرتکب ہے۔ نسلی امتیاز رگ و پے میں پیوست ہے ۔ اظہاربرتری اور انتقامی جذبات میں انسانی حدود کو پار کیا جارہا ہے۔ ظالم و سفاک کی بھرپور امداد اور اندرونی تائید و حمایت کی جارہی ہے ۔
ہندوستان کے طول و عرض میں وقفے وقفے سے ہونے والے ماب لنچنگ کے واقعات غیرقوم کے ناپاک منصوبوں اور برے عزائم کے غماز ہیں۔ قانون کے محافظ ، عدل و انصاف کے علمبردار قانون کو بالائے طاق رکھکر باطل کی تائید و حمایت میں مصروف ہیں ۔ اب تک حکومتوں نے مسلمانوں کا استحصال کیاہے ، ان کو تعلیمی و معاشی طورپر پسماندہ بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ حکومتی ادارہ جات میں مسلمانوں کے لئے ملازمت کی اُمید میں ختم ہورہی ہیں ۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے اس کے دروازے دانستہ مسلمانوں کے لئے بند کئے گئے ۔ تعلیمی پسماندگی اور روزگار سے محرومی سے تسلی نہ ہوئی تو اب جان و مال اور عزت و آبرو کو پامال کیا جارہا ہے ۔ درندگی کی انتہا ہے کہ بے قصور شخص کو ایک ہجوم سرعام مار مار کر قتل کررہا ہے اور اس کی ویڈیو بنائی جارہی ہے اور وہ دنیا میں وائرل ہورہی ہے لیکن نہ مجرموں کو پکڑا جاتا ہے اور نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے ۔ یہ واقعات پوری انسانیت پر بدنما داغ ہیں۔
ساری دنیا میں کسی مذہب و قانون نے انسانیت کے حقیقی احترام کا درس دیا ہے تو وہ دین اسلام ہے ۔ جس نے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام دیا اور خونِ انسانی کی حرمت و پاسداری کا سب سے اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے ۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’جس نے کسی ایک انسانی جان کو جان کے بدلے کے بغیر یا زمین میں فساد کے ذریعہ قتل کیا ۔ گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی ‘‘۔ (سورۃ المائدۃ )
اسلام کے نزدیک ہر انسان کی اہمیت ہے ، خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی ، عیسائی ہو یا مجوسی ، بت پرست ہو یا زرتشی ، کسی بھی مذہب و دین سے وابستہ ہو ، کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ، امیر ہو یا غریب ، حاکم ہو یا محکوم ، سیاہ فام ہو یا سفید ، سارے انسان بلالحاظ مذہب و ملت اور بلاامتیاز رنگ و نسل برابر و مساوی ہیں۔ انسانی حقوق میں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں دی گئی بلکہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے ۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’اگر سارے اہل زمین و آسمان کسی ایک مومن کے خون میں شریک ہوں تو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ان سب کو دوزخ کی آگ میں جھونک دے گا ‘‘۔ ( ترمذی )
ایک طرف ساری قومیں مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہیں تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں دست بگریباں ہیں ۔ معمولی باتوں پر نزاعات و اختلافات کا شکار ہیں۔ ادنی سی چیز کے لئے ایک دوسرے کے قتل و خون کرنے پر آمادہ ہیں۔ دشمن کی معمولی سی چنگاری کو بجھانے کے لئے مسلمان کا قتل کیا جارہا ہے ۔ کس قدر جہالت ، درندگی ، حیوانیت اور سفاکی انسانی معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہے ۔ دنیا کے نزدیک مسلمان کے قتل و خون کی کوئی وقعت ہو یا نہ ہو ، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک یہ بات سنگین مسئلہ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو آدمی کسی مومن کا عمداً قتل کرے گا ، اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اﷲ کا غضب اور اس کی لعنت اس پر ہوگی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔ (سورۃ النساء )
حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا ، اس کا ایک ایک جز ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یقینا تمہارے خون ، تمہارے اموال ، تمہاری عزت و ناموس ، تمہارے اس ماہ ، تمہارے اس شہر ، تمہارے اس دن کی حرمت کی مانند حرام ہیں ، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو ۔ سنو ! کیا میں نے پہنچادیا ؟‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ’’ہاں‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اے پروردگار تو گواہ رہ اور حاضر غائب کو پہنچادے ‘‘۔ (صحیح البخاری ۔ کتاب الحج)
واضح باد کہ قتل ایک ایسا سنگین گناہ ہے کہ قیامت کے دن اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سب سے پہلے قتل سے متعلق فیصلہ فرمائیگا ۔ ( بخاری )
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’تم کسی نفس کو ناحق قتل مت کرو ، جس کی اﷲ کے پاس حرمت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے تمکو اس بات کی وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ سکو‘‘۔ ( سورۃ الانعام )
اگر کوئی شخص اس حد تک گرجائے کہ وہ کسی انسان کے قتل ناحق کا مرتکب ہوجائے تو اس نے ایسی سنگین غلطی کی ہے کہ جس کے پاداش میں اس کو قصاصاً قتل کیا جائے گا یعنی ایسا مجرم جینے کے قابل نہیں ہے ۔
قصاص میں قتل کئے جانے کی سزا بظاہر سخت معلوم ہوتی ہے جبکہ درحقیقت اس میں حیات انسانی کی بقاء کی ہے ۔ قتل کاا رادہ کرنے والا جب اپنے ہولناک انجام پر غور کرے گا تو قتل سے رُک جائے گا جس کی وجہ سے ایک شخص قتل ہونے سے بچ جائے گا اور قتل قصاص میں قتل ہونے سے محفوظ رہے گا ۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے قرب قیامت میں قتل و خونریزی کے عام ہونے کی پیشن گوئی فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : ’’زمانہ قریب ہوجائے گا ، علم گھٹ جائیگا ، بخالت بڑھ جائیگی ۔ فتنے ظاہر ہوں گے اور ’’ہرج ‘‘ کی کثرت ہوجائیگی ‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ’’یا رسول اﷲ؟‘‘ ہرج کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’قتل ، قتل ‘‘ ۔
( بخاری ، کتاب الفتن )
آج حضور پاک ﷺ کی پیش گوئی کی حقانیت و صداقت کو ساری دنیا محسوس کررہی ہے ، ہر طرف خونریزی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، قتل و خون کی مسموم ہوائیں چل رہی ہے ، دنیا کا ہر حصہ خون انسانی سے آلودہ ہے ۔ اسلام دشمنی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ایک مسلمان شخص کو کھلے عام مار مار کر قتل کیا جارہا ہے اور ظالم و سفاک دشمن طرب و سرور کی محفلیں سجارہا ہے لیکن ان کو پتہ نہیں کہ ایک مسلمان کے سینے میں چھپے ایمان کی عظمت کیاہے ۔ واقعی ایک مسلمان کے قتل کے مقابل میں ساری دنیا کا زوال پذیر ہوجانا ہیچ ہے ۔ حضور پاک ﷺ کا ارشاد ہے کسی مومن کو قتل کرنا ،اﷲ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے زوال سے زیادہ عظیم ہے ۔ ( سنن نسائی ۔ کتاب تحریک الدم ، باب تعظیم الدم )