مادھوی لتا حیدرآباد میں زیرو ، شمالی ہند اور قومی میڈیا میں ہیرو

,

   

حیدرآباد لوک سبھا حلقہ میں سخت مقابلہ کا محض دکھاوا، بی جے پی قائدین مہم سے دور، کانگریس امیدوار کی مہم بی جے پی سے آگے
حیدرآباد۔/7 مئی، ( سیاست نیوز) لوک سبھا حلقہ حیدرآباد میں بی جے پی مقابلہ کے سلسلہ میں کس حد تک سنجیدہ ہے اس بارے میں نہ صرف بی جے پی کیڈر بلکہ رائے دہندوں میں مختلف رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کی قومی قیادت نے چارمینار پر بھگوا پرچم لہرانے کا اعلان کرتے ہوئے کارپوریٹ میڈیکل گھرانہ سے تعلق رکھنے والی مادھوی لتا کو امیدوار بنایا اور انہیں حیدرآباد میں ہندوتوا کے چہرہ کے طور پر پروجکٹ کیا گیا۔ انتخابی مہم کے اختتام کو محض چار دن باقی ہیں لیکن آج تک بھی مادھوی لتا لوک سبھا حلقہ حیدرآباد میں انتخابی مہم کے اعتبار سے اپنی شناخت نہیں بنا سکیں۔ مادھوی لتا ٹی وی چینل اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اسے انتخابی مہم کے لوازمات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادھوی لتا کے نام کے اعلان کے بعد سے ہی حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سینئر بی جے پی قائدین اور سرگرم کارکن ناراض ہیں اور انہوں نے خود کو حیدرآباد کے بجائے سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں کشن ریڈی کی مہم میں مصروف کرلیا ہے۔ مادھوی لتا کو امیدوار بنائے جانے کا مقصد حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے کامیابی حاصل کرنا ہے یا پھر بالواسطہ طور پر کسی کی مدد کرنا ہے اس بارے میں بی جے پی کیڈر کی رائے یکساں دیکھی جارہی ہے۔ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے تحت گوشہ محل اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرنے والے بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ انتخابی مہم میں ایک دن بھی دکھائی نہیں دیئے۔ پرانے شہر میں امیت شاہ کے روڈ شو کے موقع پر راجہ سنگھ شریک تھے اس کے بعد وہ مہم سے دور ہیں حتیٰ کہ وہ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں کشن ریڈی کی مہم سے بھی دوری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مادھوی لتا کو شمالی ہند میں بڑے پیمانے پر تشہیر حاصل ہوئی ہے۔ انہیں تلنگانہ میں ہندوتوا چہرہ اور اوما بھارتی، سادھوی رتمبرا کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تلنگانہ میں بی جے پی کیڈر قبول کرنے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ بھلے ہی انتخابی حلقہ میں مادھوی لتا کی مہم دکھائی نہ دے لیکن شمالی ہند میں اور قومی الیکٹرانک میڈیا چینلس پر انہیں ایک مقبول لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بی جے پی قائدین کا ماننا ہے کہ مادھوی لتا کی سرگرمیاں اور مقبولیت زمینی سطح پر نہیں ہیں بلکہ صرف سوشیل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک محدود ہوچکی ہیں۔ کسی بھی امیدوار کیلئے رائے دہندوں سے ملاقات ضروری ہے لیکن مادھوی لتا کو شکایت ہے کہ حیدرآباد میں خود بی جے پی قائدین اور کیڈر سے تعاون نہیں مل رہا ہے۔ گذشتہ 4 دہوں میں بی جے پی کے کئی سرکردہ قائدین نے حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے مقابلہ کیا تھا جن میں سابق نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو بھی شامل ہیں لیکن بی جے پی زمینی طور پر مضبوط نہیں ہوسکی۔ مادھوی لتا انتخابی مہم کے اعتبار سے حیدرآباد میں زیرو ہیں لیکن قومی چینلس اور سوشیل میڈیا میں انہیں ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابی مہم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مادھوی لتا سے زیادہ کانگریس امیدوار ولی اللہ سمیر انتخابی مہم میں زیادہ سرگرم ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی ہوسکتا ہے کہ تلنگانہ میں ایک خاتون کو ہندوتوا چہرے کے طور پر تیار کررہی ہے اور اُتر پردیش کی طرح تلنگانہ میں بھی خاتون ہندوتوا چہرے کے ذریعہ ووٹ بینک مستحکم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ شمالی ہند میں مادھوی لتا کی تشہیر کا مقصد اکثریتی طبقہ میں ان کا تعارف کرانا ہے۔ کئی قومی نیوز چینلس نے اپنے پرائم شو میں مادھوی لتا کا انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا۔ بی جے پی کیڈر کا دعویٰ ہے کہ مادھوی لتا محض اپنے کارپوریٹ بیاک گراونڈ کے سبب قومی ٹی وی چینلس میں جگہ بناچکی ہیں لیکن ٹی وی چینلس یا سوشیل میڈیا پر دکھائی دینے سے ووٹ حاصل نہیں ہوں گے۔ حیدرآباد کیلئے بی جے پی نے جس دن مادھوی لتا کے نام کا اعلان کیا تھا اسی دن سے مقامی جماعت مجلس کے کیڈر نے اطمینان کی سانس لی کیونکہ چناؤ میں عملاً کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مادھوی لتا نے خود بھی پارٹی ہائی کمان سے مقامی بی جے پی قائدین کے عدم تعاون کی شکایت کی ہے۔ انتخابی مہم کے اختتام کو محض چار دن باقی ہیں لیکن آج تک بھی مادھوی لتا نے لوک سبھا حلقہ تمام 7 اسمبلی حلقہ جات کا دورہ نہیں کیا۔ موجودہ صورتحال کی اصل وجہ مقامی سطح پر عدم تعاون کی صورتحال ہے اور پیداترا، جلسے یا انتخابی دفاتر کے قیام کے سلسلہ میں مقامی قائدین کی رہنمائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دفاتر قائم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت حیدرآباد لوک سبھا حلقہ میں سنجیدہ مقابلہ کے بارے میں لاکھ دعویٰ کرلے لیکن حیدرآباد کا ہر رائے دہندہ جانتا ہے کہ الیکشن عملاً یکطرفہ ہے۔1