ماہِ میلاد کا پیغام

   

ڈاکٹر عاصم ریشماں
ہمارے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں یہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جتنی مرتبہ پلٹ کر آیا، کیا ہم نے ایک مرتبہ بھی اس کے دامن میں تشریف لانے والی ہستی نبی اکرم ﷺ کے پیغام پر کان دھرے؟ کیا ہم نے جشن میلاد النبی ﷺ مناتے ہوئے کبھی سوچا کہ آج کے دن پیدا ہونے والے نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعثت کیا تھا؟ انہوں نے زندگی بھر کیا امور سر انجام دیئے اور اس بارے میں ہم پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟ ان کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے ہم نے ان کے پاکیزہ مشن کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں؟
مدنی تاجدار ﷺ جن کا جشن ولادت ہم ہر سال عقیدت و محبت اور جوش و جذبہ سے مناتے ہیں، اس لیے کہ ہم ان کے نام لیوا امتی ہیں اور ان کی غلامی اور اتباع کا دم بھرتے ہیں۔ ان کے لائے ہوئے دین کی عظمتوں کو دل سے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے درِ اقدس سے ملنے والی ایمان و عمل کی روشنی کو نورِ سرمدی سمجھتے ہیں۔ اس تعلق غلامی کا ایک تقاضہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم پر سراپا تشکر و امتناع بن جائیں، یہ خوشی میلاد النبی ﷺ کے ایک دن کیلئے نہیں زندگی کی ہر سانس بھی ان کے نام کردیں تو بھی حق غلامی ادا نہیں ہوسکتا۔ نباتات و جمادات میں احساس و ادراک کی صفت نہیں ہوتی لیکن حضور ﷺسے تعلق اتنی بڑی حیران کن طاقت ہے کہ وہ خشک تنے کو ہوش و خرد اور احساس و ادراک ہی نہیں محبت و عشق کے جذبے سے بھی نواز دیتی ہے اور ایک طرف ہم ہیں کہ تمام تر قلبی ذہنی اور حسی صلاحیتیں رکھتے ہوئے بھی بے حس، بے کیف اور محروم ہیں۔ کیا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں جو قربت مصطفی ﷺسے فیض پاکر حیات جاوید کے مسحتق ٹھہرے۔ مگر ہم تو حضور ﷺکے ماننے والے، آپ پر ایمان کے دعویدار اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع کا دم بھرنے والے ہیں۔ آج کیوں ہم اپنے رب تعالیٰ سے اپنے رسول ﷺ سے اور اپنی عاقبت سے بے خبر ہیں۔ ہمارے سینوں کے اندر دل دھڑکتے ضرور ہیں لیکن ان دھڑکنوں میں فانی دنیا کی محبتیں رچ بس گئی ہیں۔ دل کی تختیاں غفلت اور شامت اعمال سے سیاہ ہوچکی ہیں۔ یہی سیاہی ہماری بے چینی اور اضطراب کا سبب ہے۔ نہ ہمیں اپنے گھر میں سکون، نہ ہمارے معاشرے امن کے امین، عالم میں ہمارا کوئی وقار جونبی شجر، حجر، چرند، پرند سب کے لیے رحمت بن کر آئے۔ میلاد النبی ﷺکی اس صبح سعادت سے آج تک تقریباً ساڑھے چودہ سو سال سے زائد کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ ﷺ کے نام لیوا ہر سال اس صبح سعید کا استقبال حتی المقدور جذبہ ایمانی اور ملی جوش و خروش سے کرتے آئے ہیں۔ یوم میلاد کو کماحقہ منانے کے لیے اس سے لاکھوں درجے جوش و جذبہ، جشن، تقریبات وغیرہ کا اہتمام ہونا چاہئے کیوں کہ یہ دن امت محمدیہ ﷺ کے لیے سال بھر میں افضل ترین دن ہے۔ اسے شایان شان طریقے سے منانے کیلئے جتنی کوشش، محنت اور جانی و مالی قربانی ہوسکے کرنی عین تقاضائے ایمان ہے لیکن اس دن کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ایک زندہ و باشعور امت ہونے کے ناطے ہم اس دن کو بطور عید منانے کے ساتھ ساتھ یوم تجدیدِ عہد کے طور پر بھی منائیں۔ آئیے! اپنے اپنے اداروں، گھروں، محلوں اور حلقہ ہائے اثر میں سیرت و سنت نبوی ﷺ کے اس آفاقی پیغام پر غور و فکر کی دعوت دیں لیکن ایک مرتبہ پھر اپنے ذاتی کردار کو سیرت النبی ﷺ کے آئینے کے سامنے رکھ کر ضرور دیکھ لیں۔
قرآن حکیم نے آپ ﷺکی بعثت و لادت کو اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم قرار دیا، صاف ظاہر ہے اللہ پاک کی ہر نعمت انسانوں پر اس کا احسان ہے لیکن عادت و شان ربوبیت کے برعکس اس نے اس نعمت کبری کا احسان جتلانا شاید اس لیے مناسب سمجھا کہ انسان کی طبعی احسان فراموشی رسول اعظم و آخر ﷺکو عام نعمت سمجھتے ہوئے ناقدری کی مرتکب نہ ہوجائے۔ چنانچہ اہل ایمان کا غنچہ دل اس ماہ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی کھل اٹھتا ہے وہ اللہ رب العزت کے حضور وفور سپاس سے سربسجود ہوجاتے ہیں کہ اس ذات نے انہیں رسول مکرم ﷺ کے طفیل ایمان کی دولت بے بدل سے نوازا۔ یہی وفور شوق محافل و مجالس میلاد کا سبب ہے اور اس باطنی ایمانی جذبے کے تحت اہل اسلام آقا ﷺ کی آمد پر اس دن کو جشن اور عید کے طور پر مناتے چلے آئے ہیں۔