ماہ رمضان المبارک کے دوران لاک ڈاؤن ختم ہونے کا امکان نہیں

   

مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے تاجروں کو بھاری نقصان ، درزی پیشہ سے وابستہ لاکھوں افراد بیروزگار
حیدرآباد۔14اپریل(سیاست نیوز) مسلمانوں کے چنندہ کاروبار ایسے ہیں جن کے ذریعہ وہ خود تجارت کرتے ہیں اور اپنی تجارت یا کارخانہ کے آپ مالک ہوتے ہیں۔ شہرحیدرآباد میں جن کاروبار اور کارخانوں میں مسلمان خدمات انجام دیتے ہیں یا مسلمانوں کے اپنے کاروبا ر تصور کئے جاتے ہیں ان میں درزی کا کام بھی شامل ہے اور ماہ رمضان المبارک کے دوران شہر حیدرآباد میں ریڈی میڈ کلچر کے فروغ کے باوجود درزی کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور شہر کے کئی علاقوں میں درزیوں کا انحصار ماہ رمضان المبارک کے دوران سلوائے جانے والے نئے کپڑوں پر ہوتا ہے لیکن جاریہ سال ماہ رمضان المبارک کے دوران شہریوں کی جانب سے درزی کی جانب سے توجہ دینے کی فرصت نہیں ہوگی اور نہ ہی نئے کپڑوں کی جانب سے شہری متوجہ ہوسکیں گے کیونکہ دنیا بھر کو جن حالات کا سامنا ہے ہندستان اور شہر حیدرآباد کو بھی ان ہی حالا ت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور دنیا اپنی جگہ پر لاک ڈاؤن ہے اور ماہ رمضان المبارک کے دوران لاک ڈاؤن ختم ہونے یا حالات کے معمول پر آنے کے کوئی امکان نظر نہیں آرہے ہیں اسی لئے درزی اور درزی کی دکانوں میں ان کی مدد کرنے والے نوجوانوں اور بچوں کو جو کہ ماہ رمضان المبارک کے دوران خصوصی خدمات انجام دیتے ہیں انہیں بھی جاریہ سال معاشی مسائل کا سامنا رہے گا اور انہیں ان حالات میں سخت مدد درکار ہوگی۔ شہر حیدرآباد میں کئی نامور درزی موجود ہیں جو کہ مخصوص گاہکوں کے کپڑوں کی سلائی کرتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک کے دوران بھی ان کے اپنے مخصوص گاہک ہوتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک کے دوران بڑھنے والے کام کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے وہ عارضی ملازمین کی خدمات حاصل کر تے ہیں اور ان میں پڑوسی اضلاع بلکہ بسا اوقات پڑوسی ریاستوں سے مددگار درزی شہر حیدرآباد کا رخ کیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ ایسا ہونے کے آثار نہیں ہیں۔ جناب محمد عبدالرؤف جن کی ملے پلی کے علاقہ میں درزی کی دکان ہے اور ان کے پاس جملہ 5افراد خدمات انجام دیتے ہیں نے بتایا کہ جاریہ سال اگر گھروں سے بھی خیاطی کی جائے یعنی کپڑے سی کردیئے جانے کے انتظامات کئے جائیں تب بھی ماہ رمضان المبارک کے جو کام ہوتے ہیں ان کا حاصل ہونا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ شہر حیدرآباد میں لاک ڈاؤن کے سبب کپڑے کی دکان ہی بند ہیں تو ایسی صورت میں لوگ کپڑا لائیں گے کہاں سے اور سلوائیں گے کیسے !اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ کپڑوں کی سلوائی عید الفطر کا حصہ ہوتی ہے اور اس کی تیاریاں بعض گھرانوں میں ماہ رجب سے ہوا کرتی تھیں لیکن رجب سے ہی حالات ابتر ہیں ۔ جناب رحیم الدین لیڈیز ٹیلر نے بتایا کہ عام طور پر شب معراج کے بعد سے لوگوں کی توجہ کپڑوں کی سلوائی کی طرف جاتی ہے لیکن اس مرتبہ شب معرا ج سے قبل سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان حالات کے سبب لوگوں کی توجہ کپڑوں کی سلوائی جانب نہیں ہے بلکہ وہ اس امر کو مکمل طور پر نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ سید ساجد لیڈیز ٹیلر نے بتایا کہ وہ اپنی دکانات پرآرڈر حاصل کرتے ہوئے کئی گھروں میں سلائی کا کام جاننے والی خواتین کو کام دیا کرتے تھے لیکن اب وہ خود کام حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہیں تو ان خواتین کو کام کس طرح دیں جو ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اپنے رمضان کو بہتر انداز میں گذارنے کیلئے محنت کیا کرتی تھیں ۔ انہو ں نے بتایا کہ یہ مسئلہ صرف ٹیلر کی دکانات کے مالکین یا دکانات پر کام کرنے والوں کیلئے مسئلہ نہیں ہے بلکہ گھروں میں بھی کئی خواتین سلائی کے اس کام کے ذریعہ خود روزگار حاصل کرتی تھیں اور ایسی خواتین کی بڑی تعداد شہر حیدرآباد بالخصوص پرانے شہر میں موجود ہے اور اب انہیں بھی یہ روزگار حاصل نہیں ہوگا۔ لاک ڈاؤن کے سبب درزی کو ہی نہیں بلکہ درزی کے پاس سے لیجاکر گھروں میں سلائی کا کام انجام دینے والی خواتین کو بھی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ ماہ رمضان المبارک کے اخراجات کیلئے کچھ آمدنی کا ذریعہ بنالیا کرتی تھیں۔