ما بعد پہلگام ‘ نفرت کا ماحول

   

نفرت کی ایک نگاہ جگر تک اُتر گئی
ہر ایک کو اک پل میں فکرمند کر گئی
پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں نے جہاں ابتداء میں ملک بھر میں اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کرنے کی سمت پیشرفت کی تھی اور ملک کے ہر گوشے سے دہشت گردوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذمہ داروں کے خلاف ایک ماحول پیدا ہونے لگا تھا ۔ پہلگام کے انتہائی قابل مذمت حملوں میں بچ جانے والے افراد کشمیر اور کشمیری عوام کی جو ستائش کر رہے تھے اور ان کے رویہ اور مہمان نوازی پر اظہار تشکر کر رہے تھے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ نفرت پیدا کرنے والے عناصر کو برداشت نہیں ہوا ۔ ان عناصر نے پہلگام حملے کا سہارا لیتے ہوئے نفرت کے ماحول کو ہوا دینے کی کوششیں تیز کردیں اور ملک بھر میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے اور نفرت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیان بازیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ آج کے ماحول میں ملک بھر میں اتحاد و اتفاق کی فضاء کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ عوام ملک سے محبت کے جذبہ کے ساتھ ایک دوسرے سے بھی اظہار محبت کر رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے ۔ حکومت کی جانب سے بھی جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے اظہار یگانگت کیا جا رہا تھا ۔ دہشت گردوںسے اظہار نفرت کرتے ہوئے برادران وطن ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے تھے ۔ پہلگام حملے کے متاثرین سے اظہار یگانگت کرتے ہوئے مظاہرے کئے جا رہے تھے ۔ موم بتیوں کی ریلیاں نکالتے ہوئے حملوں کی مذمت کی جا رہی تھی ۔ تاہم ملک کا گودی میڈیا اور فرقہ پرست عناصر عوام کے ذہنوںمیں ہندو ۔ مسلم تفریق پیدا کرنے کیلئے لگاتار جدوجہد کر رہے تھے اور اس کا نتیجہ یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ملک بھر میں نفرت انگیز تقاریر کے 64 واقعات پیش آئے ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں ۔ گودی میڈیا نے لگاتار کوشش کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو حب الوطنی سے پھیر کر نفرت کی جانب موڑ دیا ہے اور اس کے اثرات اب دکھائی دینے لگے ہیں۔
انڈیا ہیٹ لیب کی رپورٹ کے مطابق ملک کی نو ریاستوں میں پہلگام حملے کے بعد نفرت پر مبنی 64 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں اترپردیش میں 13 اترکھنڈ میں 6 ہریانہ میں 6 راجستھان میں پانچ ‘ مدھیہ پردیش میں پانچ ‘ ہماچل پردیش میں پانچ ‘ بہار میں چار اور چھتیس گڑھ میں دو واقعات پیش آئے ہیں۔ ان میں مہاراشٹرا ‘ اترپردیش ‘ اترکھنڈ ‘ ہریانہ ‘راجستھان ‘چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی راست حکومتیں ہیں جبکہ بہار میں بی جے پی اقتدار میں جنتادل یو کے ساتھ شریک ہے ۔ نفرت پھیلانے والے عناصر کو ایسا لگتا ہے کہ کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے اور گودی میڈیا اس آگ میں تیل چھڑکنے کا کام کر رہا ہے ۔ ایسے واقعات ملک میں پیدا ہونے والے اتحاد و اتفاق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز بیان بازیاں ان ریلیوں میں ہوئی ہیں جوہندو کٹرپسند عناصر نے منظم کی تھیں۔ ان میں وشوا ہندو پریشد ‘ بجرنگ دل ‘ انٹر راشٹریہ ہندو پریشد ‘راشٹریہ بجرنگ دل ‘ ہندو جن جاگروتی سمیتی ‘ سکال ہندو سماج ‘ ہندو راشٹر سینا اور ہندو رکھشا دل شامل ہیں۔ یہ عناصر لگاتار ملک کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک کے مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں جو انتہائی نازیبا اور ناشائستہ ہیں۔ یہ الفاظ مسلمانوں کیلئے قابل برداشت نہیں ہیں۔ ان کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے اور ان عناصر کو اپنی منفی اور بیمار ذہنیت کو تبدیل کرنا چاہئے ۔ ملک میں نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے ۔
مقامی سطح پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عمل کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کو حملوںاور تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پہلگام حملے کے بعد جئے پور میں ہوا محل کے بی جے پی رکن اسمبلی خود ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے جامع مسجد پہونچ گئے اور وہاں انہوں نے نماز میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بی جے پی ہو یا دوسری ہندو تنظیمیں ہوںانہیں اپنے اس طرح کے رویہ کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ نفرت کے ذریعہ ملک کا ماحول بگاڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور ان سازشوں کو ملک کے تمام صحیح الفکر گوشوں کو حرکت میںآتے ہوئے ناکام بنانا ہوگا ۔ حکومتوں کو بھی اس طرح کے معاملات کا سخت نوٹ لیتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی اور سرکوبی کرنی چاہئے ۔ کسی کو بھی ملک کا ماحول بگاڑنے کی اجازت قطعی نہیں دی جانی چاہئے ۔ انہیں قابو میں کیا جانا چاہئے ۔
مس ورلڈ مقابلہ
حیدرآباد میں مس ورلڈ مقابلہ کی تیاریاںعروج پر پہونچ چکی ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان مقابلوں کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ تمام انتظامات کو معیاری انداز میں مکمل کیا جا رہا ہے ۔ پولیس کی جانب سے وسیع ترا نتظامات ہو رہے ہیں تو تفریحی مقامات کو بھی تزئین کرتے ہوئے پرکشش بنایا جا رہا ہے ۔ تلنگانہ اور خاص طور پر حیدرآباد کیلئے یہ مقابلے اہمیت کے حامل ہیں۔ حیدرآباد عالمی سطح پر اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے اوراس شناخت کو مزید مستحکم کرنے کیلئے مس ورلڈ مقابلہ اہمیت کا حامل ہے ۔ دنیا بھر کے 120 ممالک سے حسینائیں اس مقابلہ میں شرکت کریں گی ۔ ان کے ساتھ ان ممالک کے مندوبین بھی ہونگے ۔ان تمام کیلئے حیدرآباد کو ایک پرکشش مقام بناکر پیش کرنے کی ضرورت ہے اور جو انتظامات کئے جا رہے ہیں وہ انتہائی معیاری اور شاندار ہونے چاہئیں۔ عالمی نقشہ پر حیدرآباد کو مزید ابھارنے کیلئے یہ مقابلہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کی تیاریوں اور انتظامات میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہئے اور حیدرآباد کو عالمی نقشہ پر ابھارنے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے ۔