روش کمار
نریندر مودی حکومت ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے دعوے کرتی ہے۔ اس کا اور اس کے حامیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مودی نے ہندوستان کی معیشت کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بنادیا ہے لیکن اس کی حقیقت کیا تھی، وہ سب اچھی طرح جان چکے ہیں۔ اب یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ ہندوستان کی معیشت اگلے 25 سال تک 11.41% کے حساب سے ترقی کرسکتی ہے۔ 25 سال تک لگاتار 11% سے زیادہ کی رفتار سے بڑھنا ناممکن ہے۔ اگر یہ نہیں ہوسکے گا تو 2047ء میں ترقی یافتہ ہندوستان بننے کے ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ 2047ء کے نام پر جو خواب دکھایا جارہا ہے، وہ کسی زمین پر کھڑے ہوکر آپ دیکھ رہے ہیں یا دکھایا جارہا ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے۔ کیا سخت محنت کرنے والے عام آدمی کو اندازہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے پاس جو ٹیکس جمع ہوتا ہے، اس کا 80% حصہ وہی ادا کرتا ہے۔ آج سے 15 سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ حکومتوں کے پاس جو ٹیکس جمع ہوتا تھا، اس کا 65% عام آدمی سے آتا تھا جو فی الوقت 80% ہوگیا ہے۔ 15 سال پہلے 35% حصہ کارپوریٹ گھرانوں اور مینوفیکچررس سے آتا تھا۔ اب یہ گھٹ کر 35% سے 15% پر آگیا ہے۔ اے چکرورتی کا کہنا ہے کہ متوسط طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے۔ آنندیو چکرورتی کا یہ جائزہ کیا متوسط طبقہ اور عام آدمی تک پہنچ رہا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ عام آدمی برداشت کررہا ہے۔ جی ایس ٹی کا سارا بوجھ صارفین پر ڈال دیا گیا۔ آپ کچھ بھی خریدتے ہیں، اس کی قیمت میں یہ شامل ہوتا ہے۔ پٹرول پر عائد ہونے والی اکسائز ڈیوٹی بھی صارفین پر عائد کی جارہی ہے۔ عام آدمی تقریباً سارا جی ایس ٹی، ساری اکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی کا کچھ حصہ ادا کررہا ہے۔ اب آپ ہندوستان کی معیشت کے اعداد و شمار بھی دیکھ لیجئے لیکن زیادہ چرچہ کرنے پر ایک خطرہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی عدالت کا حکم لے کر آجائے کہ اس طرح کی باتیں کرنے سے ہندوستان کی غریبی نظر آتی ہے اور اسے دکھانے سے ہندوستان کا نام خراب ہوتا ہے تو آپ اپنے خبر کی کاپی پھاڑ دیجئے۔ ویڈیو حذف کردیجئے، صرف وزیراعظم کی سالگرہ پر اخباروں کو بھر دیجئے جس میں کسی بھی سرکاری اسپتال کے باہر غریبی اور لاچاری کا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ عام آدمی کی کوئی مجبوری نظر نہیں آتی، کبھی وہ کندھے پر اپنے بچے کی نعش اٹھا رہا ہے تو کبھی اسپتال کے باہر تڑپ کر دَم توڑ رہا ہے۔ اس ملک میں دو ارب پتی صنعت کاروں کی توہین کا مسئلہ بہت بڑا ہوگیا ہے۔ ان کے بارے میں لکھنے اور کچھ کہنے پر ویڈیو حذف کرنے کا حکم آجاتا ہے۔ ایک خبر دیوے بھاسکر میں ہے کہ گجرات کے چھوٹا اودے پور میں دو لوگ اپنے کندھوں پر حاملہ خاتون کو اُٹھائے 5 کیلومیٹر تک چلتے رہے تاکہ اسپتال پہنچا سکے۔ راستے میں طبی امداد نہ ملنے پر خاتون کی موت ہوگئی۔ اس قسم کی بے شمار خبریں الگ الگ ریاستوں سے آئے دن آتی رہتی ہیں کہ بچے کی نعش لے جانے کیلئے ایمبولینس نہیں ملی تو باپ کندھے پر اپنے بیٹے کی نعش لئے جارہا ہے یا اسپتال پہنچ کر علاج کی سہولت نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر کوئی مرگیا ہے۔ عام آدمی کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں، کوئی اہمیت نہیں اور ایسی خبروں سے اب کسی کو فرق نہیں پڑتا لیکن عام آدمی کو فرق پڑتا ہے کیونکہ بناء علاج کے وہی مرتا ہے۔ مان لیجئے ملک کے سرکاری اسپتالوں کو صنعت کاروں کے درمیان بانٹ دیا گیا تب ان کی حالت کا کوریج کیسے کریں گے، کچھ بھی آپ دکھائیں گے، ان دوچار صنعت کاروں کی توہین ہوجائے گی، ان کے بنائے ہوئے پلوں کے گرنے سے لوگ مرجائیں گے تب بھی آپ اس کا کوریج نہیں کرپائیں گے، یہ کافی فکرمندی اور تشویش کی بات ہے۔ ایک طرف آپ ایرپورٹ اسٹیشن، بجلی، پانی کی سربراہی، اسکول، اسپتال سے لے کر جنگل ، کھیت اور باغ تک دوچار صنعت کاروں میں بانٹ رہے ہیں تو آپ ان مقامات پر متاثرہ عوام کی کہانی کیسے بیان کریں گے۔ عوام کے سارے سوال ہتک عزت کے آگے کچل دیئے جائیں گے۔ آپ اسپتالوں کی حالت زار پر رپورٹ نہیں کرپائیں گے۔ اگر آپ سب کچھ ختم کردینا چاہتے ہیں، اس میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ہمارا کام ہے، آپ کو وقت بہ وقت حقیقت سے واقف کرانا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ صنعت کاروں کی طاقت اتنی بڑھ جائے کہ کوئی سوال نہ اُٹھا سکے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ایسا ہونے سے آپ کی حالت کیا ہوجائے گی۔ یاد رکھنا چاہئے بہار کی ایک تہائی آبادی مہینہ میں 6 ہزار روپئے بھی نہیں کما پاتی، بہار میں اس قدر شدید غربت ہے، بہار ہی نہیں قومی سطح پر دیکھئے ہندوستان میں فی کس اوسط آمدنی 2,381 ڈالر ہے جو ترقی یافتہ ملک ہیں۔ ان کی فی کس اوسط آمدنی 14,006 ہے۔ ہندوستانی روپیہ میں فی کس اوسط آمدنی ایک سال میں 2 لاکھ 10 ہزار اور ترقی یافتہ ملکوں میں فی کس اوسط آمدنی 12,29,699 ہے یعنی ہندوستان سے 10 لاکھ 19 ہزار زیادہ ہے۔ مسٹر سی رنگاراجن ریزرو بینک کے سابق گورنر ہیں انہوں نے ایک خطاب میں کہا کہ 2047ء تک اگر ترقی یافتہ ملک بننا ہے تو کیا ہندوستان میں فی کس اوسط آمدنی 18,414 ڈالر ہوسکتی ہے، ان کے حساب سے یہ کافی مشکل کام ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کیلئے شرح نمو 11.47% کے حساب سے ہونی چاہئے، وہ بھی اگلے 25 برسوں تک۔ اگر اس رفتار سے ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار بڑھے گی تب ہی ہندوستان ترقی یافتہ ملکوں کی برابری کرسکتے گا۔ ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر ہے، اس کا جائزہ لیجئے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2024ء اور 2025ء میں جتنے لوگوں نے ٹیکس ادا کیا، ان میں سب سے بڑا حصہ ان لوگوں کا ہے جن کی آمدنی 2.5 سے 7.5 لاکھ کے درمیان ہے اور وہ بھی سالانہ ۔ ٹیکس بھرنے والوں میں 2.5 سے 7.5 لاکھ کمانے والوں کا فیصد 60% سے بھی کم ہے۔ اس میں بھی ڈھائی لاکھ کمانے والے 10% ہیں اور ڈھائی سے 5 لاکھ کمانے والے 34% اور 5 لاکھ سے 7.5 لاکھ کمانے والے 26.7% ہیں یعنی ٹیکس بھرنے والوں میں سب سے بڑا حصہ ان کا ہے جو ماہانہ 20 سے 40 ہزار ہی کما رہے ہیں۔ 25 لاکھ سے زائد کا ریٹرن فائل کرنے والے صرف ڈھائی فیصد ہیں۔ تو یہ ہے ہندوستان عوام کی معاشی حالت سے متعلق سچائی۔ ایک طبقہ پیسے والوں کا ہے، اس کے پاس پیسہ بھی ہے اور کالادھن کا انبار بھی ہے۔ حال ہی میں آسام میں نپوریورا کے گھر سے 2 کروڑ نقد رقم اور زیورات ملے۔ نپور، آسام سیول سرویس کی عہدہ دار، اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے زیادہ، یہ لوگ پیسے سے کس طرح کھیلتے ہوں گے سوچئے۔ اوڈیشہ ویجیلنس کے ٹوئٹر ہینڈل پر آئے دن لاکھوں کروڑ روپئے کی نقد پکڑے جانے کے ویڈیوز آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کی بیورو کریسی میں کون کہاں بیٹھتا ہے اور کروڑہا روپیہ غیرقانونی طریقہ سے کماکر عیش کررہا ہے۔ آپ جانتے بھی لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ عہدیداروں کے کرپشن کے نیٹ ورک کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔ بیچ بیچ میں دھاوؤں کی خبروں سے عوام کو خوش کرادیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں کالا دھن پر زندگی گذارنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ناتو دفتر جاتی ہے، نہ فیکٹری جاتی ہے مگر لاکھوں روپئے کی گاڑی اور قافلے لے کر اس لیڈر سے اس لیڈر کے گھر چکر لگاتی ہے۔ آپ اپنی کمائی دیکھئے اور ایسے لوگوں کا عیش دیکھئے، پتہ نہیں چلے گا کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کیسے بھی دیکھیں۔ ہندوستان کا نظام بھید بھاؤ سے بھرا ہے کوئی مرمر کر کام کررہا ہے مگر پیسہ نہیں بچ رہا ہے لیکن کوئی کچھ بھی نہیں کررہا ہے، ٹیکس بھی نہیں دے رہا ہے لیکن لاکھوں کروڑوں روپئے کے کالا دھن سے کھیل رہا ہے جو دیانت دار ہے، اسے ڈرایا جاتا ہے، جو بدعنوان ہے، ساری دنیا اُس کے قدموں میں ہے۔ ہندوستان کے عوام کو دیکھئے جو کتنی محنت کررہے ہیں۔ سامان خرید کر انکم ٹیکس بھرنے کے بعد جی ایس ٹی کی شکل میں حکومت کا خزانہ بھر رہے ہیں۔ پہلے اس کا حکومت کے خزانہ میں 65% حصہ تھا، اب 80% ہوگیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا میں اتل ٹھاکر کا ایک جائزہ یا تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس کے مطابق سال کا 25 لاکھ سے 50 لاکھ روپئے کے درمیان کمانے والوں کی سب سے بڑی تعداد مہاراشٹرا میں ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹرا اور ٹاملناڈو میں ہے۔ جھارکھنڈ کے 20% انکم ٹیکس ادا کرنے والوں نے 15 سے 50 لاکھ روپئے کی آمدنی کا اقرار کیا ہے مگر گجرات میں صرف 7% فیصد نے ایسا اقرار کیا ہے۔ فیصد کے حساب سے دیکھیں گے تو 12 سے 50 لاکھ روپئے تک کمانے والوں کے معاملے میں گجرات، بہار سے بھی پیچھے نظر آتا ہے۔ 25 سے 50 لاکھ روپئے کھانے والوں کا فیصد دیکھیں گے تو باقی ریاستوں کے مقابلے میں گجرات کا نمبر 10 ویں مقام پر کبھی آتا جبکہ وہاں 30 ہزار سے زائد فیکٹریاں ہیں اور بہار میں 40 فیکٹریاں بھی نہیں ہیں۔ اخبارات میں ایسی خبریں اِدھر اُدھر شائع ہوتی رہتی ہیں مگر سیاسی مسائل کے شور میں ان کا پتہ نہیں چلتا۔ عوام کے درمیان ایسی خبریں پہنچ نہیں پاتیں۔ زیادہ تر لوگ اپنی کمائی کا ٹھیک حساب بھی نہیں رکھ پاتے۔ سال در سال اس میں ایسی تبدیلی کے بارے میں اندازوں کے مطابق ہی بات کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک جائزہ منظر عام پر آیا۔ گاوؤں اور شہروں کے 6 ہزار گھروں کا جائزہ لیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ 2022ء میں مہینہ کا اوسط خرچ 42 ہزار تھا۔