متھن چکرورتی کی دھمکیاں

   

اعزاز ملتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھے
یا رب یہ ابتداء ہے تو کیا ہوگی انتہا تیری
ہندوستان میں یہ روایت بن گئی ہے کہ جب اپنے اپنے شعبہ میں کیرئیر ختم ہوجاتا ہے تو مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست میںمقام حاصل کیا جائے ۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب کیرئیر کے اختتام پر برسر اقتدار اتحاد کی چاپلوسی کرتے ہوئے کئی لوگوں نے کئی عہدے حاصل کئے ہیں اور پھر انہوںنے اقتدار کے تلوے چاٹتے ہوئے بقیہ زندگی میں کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو ۔ فلمی دنیا کے بھی کئی افراد ہیں جنہوں نے سیاست کے میدان میں بھی کام کیا ہے ۔ امیتابھ بچن بھی کسی زمانے میں رکن پارلیمنٹ ہوا کرتے تھے ۔ گوندا بھی ایم پی رہے ہیں۔ سنیل دت بھی رکن پارلیمنٹ رہے ہیں۔ ان کے فرزند سنجے دت بھی سیاست میںقسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ راج ببر بھی سیاست میںسرگرم ہیں۔ اسی طرح کئی ستارے ہیں جنہوں نے فلمی کیرئیر کے بعدسیاست کو منتخب کیا ہے ۔ تاہم بیشتر فلمی ستاروں نے اصولی سیاست کی ہے اور نظریات سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ ان میں سنیل دت کا نام سر فہرست آتا ہے ۔ اسی طرح راج ببر بھی ہیں۔ ہر کسی نے کسی نہ کسی نظریہ سے وابستہ ہوتے ہوئے کام کیا ہے ۔ ابتداء میںمتھن چکرورتی نے بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ بھی نظریاتی سیاست کریں گے ۔ وہ بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس سے وابستہ ہوئے تھے ۔ ساتھ ہی فلمی دنیا کی چکاچوند سے بھی انہوں نے ناطہ بنائے رکھا تھا ۔ تاہم بعد میں متھن چکرورتی بی جے پی میںشامل ہوگئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی بنگال کے چیف منسٹر بننے یا مرکز میں کوئی اہم وزارت حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کھلے عام مسلمانوںکے خلاف نفرت اگلنے اور زہر گھولنے کا کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں متھن چکرورتی نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی موجودگی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو کاٹ دینے اور ان کا عملا صفایا کردینے کی دھمکی دی ہے ۔ یہ ملک کے وزیر داخلہ کی موجودگی میں دیا گیا انتہائی سنگین بیان تھا اور زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ امیت شاہ اس پر خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ وہ ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ یہ دھمکیاں سنتے رہے ۔ وہ شائد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ بھی متھن چکرورتی کی دھمکیوںسے متفق ہیں۔
متھن چکرورتی نے جذبات کی روانی میں یہ بھی کہا کہ ہم نے بھی خون کی سیاست کی ہے ۔ یہ ایک طرح سے بی جے پی کے ماضی کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ واضح کردیا کہ بی جے پی نے کبھی بھی خون کی سیاست کرنے سے گریز نہیں کیا ہے ۔ جہاں پہلے خون کی سیاست کرنے کی بات کہی گئی ہے وہیں آئندہ بنگال اسمبلی انتخابات کیلئے بھی انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے خون کی سیاست کرنے سے گریز نہیں کیا جائیگا ۔ یہ دھمکیاں ہندوستان جیسے مہذب سماج کیلئے انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے ۔ مرکزی حکومت ہو یا بنگال کی حکومت ہو دونوںکو اس کا نوٹ لیتے ہوئے متھن چکرورتی کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کرنی چاہئے ۔ انہیں جیل بھیجا جانا چاہئے ۔ چاہے کوئی اداکار ہو یا سیاستدان ہو یا کوئی اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہو وہ کسی کو بھی اس طرح قتل کردینے یا خون کی سیاست کرنے کی دھمکی نہیں دے سکتا ۔ اس طرح کی بیان بازیوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا اور نہ برداشت کیا جانا چاہئے ۔ اس سے سماج میں غلط پیام جائے گا اور اس کے نتیجہ میں سماج میں نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔ بیمار ذہنیت رکھنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے اور قانون کی دھجیاںاڑائی جاسکتی ہیں۔ خود متھن چکرورتی کو اس طرح کے بیان کو واپس لینا چاہئے اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اس طرح کی بیان بازیوں کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ خود امیت شاہ کو بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔
بی جے پی میں جو کوئی لیڈر اپنے مرکزی اور اعلی قیادت کا نورنظر بننا چاہتا ہے اور کوئی عہدہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس طرح کے بیانات دینے سے گریز نہیںکرتا ۔ ایسی مثالیں پہلے بھی موجود ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف بیان بازیاں کرتے ہوئے لوگ اب چیف منسٹر بھی بن گئے ہیں اور اپنے اس عہدہ کو برقرار رکھنے کیلئے ایسی بیان بازیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کو اس معاملے کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور خاص طورپر مغربی بنگال کے عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ جو لوگ عہدہ کی لالچ میں قتل و خون کی دھمکیاںدیتے ہیں انہیں سبق سکھایا جانا چاہئے ۔ سماج میں برائیوں کو پھیلنے سے روکا جانا چاہئے اور فرقہ وارانہ منافرت سب سے بڑا ناسور ہے اور اس کا سدباب بھی ہونا چاہئے ۔
انتخابی وعدے اور بجٹ
کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے ریاستی قائدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انتخابات کے موسم میں عوام سے کوئی بھی وعدے کرنے سے قبل ریاستی بجٹ کا خیال رکھیں۔ کانگریس صدر نے جو مشورہ دیا ہے وہ قابل عمل اور بہتر مشورہ ہے کیونکہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ریاستوں میںاقتدار حاصل کرنے کیلئے عوام سے ایسے وعدے بھی کئے جا رہے ہیں جن کی تکمیل کرنا بہت زیادہ مشکل یا تقریبا نا ممکن ہوتا ہے ۔ ان وعدوں کا آغاز بی جے پی اور نریندر مودی نے 2014 کے انتخابات سے قبل کیا تھا ۔ مودی نے سالانہ دو کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا اور شائد دس سال میں بھی دو کروڑ نوکریاں نہیں دی گئیں۔ اسی طرح ہر شہری کے کھاتے میںپندرہ لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھا جو پورا نہیں ہوا ۔ مہنگائی کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ بھی پورا نہیںہوا ۔ ایسے میںصرف کانگریس قائدین ہی کو نہیں بلکہ بی جے پی اور دوسری جماعتوںکو بھی عوام سے وعدے کرنے سے قبل ان کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔