ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ملک میںمجرمانہ عناصر کے حوصلے بلند ہوتے چلے جا رہے ہیں اور جب چاہیں ‘ جہاںچاہیں جس کسی کو چاہیں نشانہ بنا کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ جو عناصر انتہائی گھناؤنے اور سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں وہ کھلے عام ان جرائم کا اقبال بھی کرنے لگے ہیں۔ ملک میں صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ ہماری تحقیقاتی اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں ان عناصر کو گرفتار کرنے اور قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی وجہ سے ان عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے اپنے شکار کرتے جا رہے ہیں۔ کچھ وقت قبل پنجاب میں کانگریس لیڈر اور سنگر سدھو موسے والا کو قتل کردیا گیا تھا ۔ اس وقت لارنس بشنوئی گینگ نے اس کا اقبال کیا تھا ۔ اس گینگ کے افراد دیگر جرائم میں بھی پکڑے گئے ہیں۔ وہ کبھی بھی قانون سے خوفزدہ دکھائی نہیںدئے ہیں اور نہ ہی انہیںکسی نے اب تک انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ اب مہاراشٹرا میں سابق وزیر اور سینئر این سی پی لیڈر بابا صدیقی کو موت گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ممبئی جیسے شہر میں ان کے فرزند رکن اسمبلی ذیشان صدیقی کے دفتر کے باہر حملہ آوروں نے انہیں گولی ماردی اور وہ لقمہ اجل بن گئے ۔ اب پولیس اور برسر اقتدار جماعت کے قائدین اپنا سینہ آپ ٹھونک کر کہہ رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو اندرون 24 گھنٹے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ اس طرح تو کوئی بھی کسی کو بھی جان سے مار دے گا اور گرفتار کرکے پولیس خوش ہوتی رہے گی اور سیاسی قائدین سینہ ٹھونکتے رہیں گے تو جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکے گا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ہوگی جس طرح کی اب ہو رہی ہے ۔ پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ جرائم کو وقوع پذیر ہونے سے ہی روکے اور قبل از وقت مجرمانہ ذہن رکھنے والے عناصر کے خلاف شکنجہ کسے اور انہیں جرائم سے روکے تاہم اس معاملے میں ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ بابا صدیقی کے قتل میں پولیس یا سرکاری نمائندے ملزمین کی گرفتاری کو اپنا کارنامہ بنا کر پیش کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس سے مجرمانہ عناصر قانون کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں۔
جس گینگ نے بابا صدیقی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ کوئی چھوٹی موٹی گینگ نہیں ہے ۔ اس نے اب تک ملک میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور ان جرائم کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کیا ہے ۔ گینگ نے ایک بار پھر بابا صدیقی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کام اس نے کیا ہے ۔ اب پولیس محض دو حملہ آوروں کو گرفتار کرکے اپنا سینہ ٹھونکنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ حکومت کے نمائندے اور برس اقتدار جماعتوں کے قائدین اس گرفتاری کو کارنامہ بنا کر پیش کرنے میں جٹ گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بشنوئی جیسی گینگ کے حوصلے اس قدر بلند کیسے ہوگئے ہیں۔ وہ لوگ دھڑلے سے جسے چاہیں قتل کردیتے ہیں اور جب چاہیں اس کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں۔ جسے چاہیںدھمکا دیتے ہیں اور جیلوں میں بھی ان کے تعلقات پائے جاتے ہیں تو کیا ان سب کو کسی طرح کی سیاسی سرپرستی تو حاصل نہیںہے ؟ ۔ قانون کی بالادستی والے ہندوستان جیسے ملک میں اس طرح کے مجرمانہ عناصر پر اگر قابو نہیں کیا گیا اور انہیں کیفر کردار تک نہیں پہونچایا گیا تو یہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی اور اس طرح کی قتل کی وارداتوں کا سلسلہ برقرار رہے گا ۔ یہ ہمارے لا اینڈ آر ڈر کے کیلئے ایک چیلنج ہے اور ہماری تحقیقاتی اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی اس سے سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس صورتحال پر حکومت اور سرکاری نمائندوں کو غور کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے ۔
بابا صدیقی کا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس سے ملک میں مجرمانہ عناصر کے حوصلوں اور نظم و قانون کی صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے پولیس ایجنسیوں کی کارکردگی بھی عیاں ہوجاتی ہے ۔ مرکزی حکومت کو خاص طور پر اس معاملے کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس گینگ کے تار ملک کی کئی ریاستوں میں پائے جاتے ہیں اور وہاں یہ لوگ کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو اس گینگ سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ریاستوں کو اس معاملے میں اعتماد میں لیتے ہوئے کام کرنا چاہئے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے نتیجہ میں نہ صرف بشنوئی گینگ بلکہ ملک کے دوسرے مجرمانہ عناصر کی سرکوبی کی جاسکے اور اس طرح کی قتل و غارت گری کا سلسلہ رک سکے ۔