مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے

   

میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں
اشتعال انگیز نعرے اور الیکشن کمیشن
انتخابات کے موسم میں سیاسی قائدین کو اپنی زبان پر کوئی قابو نہیںر ہتے اور وہ اس طرح کے ریمارکس کرتے ہیں یا بیانات دیتے ہیں جن کی کئی گوشوں سے مذمت کی جاتی ہے ۔ خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ انتخابات کے موسم میں بی جے پی کے قائدین اس طرح کی زبان کا استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں سماج میں نراج اور بدامنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرت پیدا ہوتی ہے اور دوریوں میںاضافہ ہوتا ہے ۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کی زبان اور بیان استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے ۔ ان پر لگام کسے اور انہیں اشتعال انگیزی کرنے سے روکے ۔ ملک میں جب کبھی اور جہاں کہیں انتخابات ہوتے ہیں وہاں بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے اس طرح کی اشتعال انگیزی کی جاتی ہیں۔ اب جبکہ ملک میں جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں ایسے میں بی جے پی قائدین کی جانب سے اسی طرح کی روش اختیار کی گئی ہے ۔ سماج میں نراج اور ایک دوسرے سے نفرت اور خوف پیدا کرنے والے نعرے دئے جا رہے ہیں۔ کہیں کہا جا رہا ہے کہ بٹیں گے تو کٹیں گے ۔ کہیں کہا جارہا ہے کہ ایک ہیں تو سیف ہیں۔ در اصل یہ بالواسطہ طور پر اکثریت کو اقلیت سے خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے ۔ بی جے پی اسی طرح کی منفی حکمت عملی کے تحت عوام سے رجوع ہوتی ہے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ملک کی تقریبا تمام ریاستوں میں پارٹی کی جانب سے اسی طرح کی حکمت عملی پر کام کیا گیا تھا ۔ کچھ ریاستوں میں اسے فائدہ بھی ہوا اور کچھ ریاستوں میں عوام نے اس طرح کے نعروںکو ناپسند بھی کیا اور مسترد بھی کردیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس طرح کے نعرے بی جے پی کوئی مقامی یا ریاستی سطح کے قائدین نہیں لگاتے بلکہ پارٹی کے اعلی ترین اور مرکزی قائدین اس طرح کے نعرے لگا رہے ہیں۔ دستوری عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے بھی یہی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے اور ایسے ریمارکس کئے جا رہے ہیں جو مہذب سماج میں نہیں کئے جانے چاہئیں۔
ہر بار کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کو اس طرح کے واقعات کی کئی شکایات ملتی ہیں۔ جاریہ انتخابی عمل کے دوران مہاراشٹرا میں ایک امیدوار کے خلاف کانگریس قائدین کے ریمارکس پر شکایت کی گئی ۔ الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹ بھی لیا اور سرزنش بھی کی ہے۔ تاہم بسا اوقات صورتحال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر بھی واقعات کا نوٹ لینا چاہئے ۔ جس طرح کے اشتعال انگیز نعروں کو عام کیا جا رہا ہے اور جس طرح سے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ان پر الیکشن کمیشن کو اپنے طور پر نوٹ لیتے ہوئے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میںسماج میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے ۔ اب بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے جو نعرے لگائے جا رہے ہیںان سے خود بی جے پی کی حلیف جماعتیں بے چینی محسوس کرنے لگی ہیں۔ چاہے مہاراشٹرا میں ہو یا پھر اترپردیش میں ہو مقامی جماعتیں اس طرح کے نعروں سے بے چینی محسوس کر رہی ہیں اور ان نعروں کو غیر ضروری قرار دیا جا رہاہے ۔ ان جماعتوں کو اندیشے لاحق ہیں کہ ا سطرح کے نعروں سے وہ اپنے اقلیتی ووٹ بینک سے محروم ہوسکتی ہیں۔ جب خود بی جے پی کی حلیف جماعتیں اس سے عدم طمانیت کا شکار ہیں تو اس سے عام انسانوں پر ہونے والے اثرات کا اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں رہ جاتا ۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور ایسے نعرے لگانے والوں کے خلاف ضروری کارروائی ہونی چاہئے ۔چاہے کوئی بھی کتنے ہی اعلی مرتبہ پر فائز ہو سماج میں بے چینی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
انتخابات کا جو وقت ہوتا ہے وہ خاص طور پر اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس وقت عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے والے در اصل اپنے ادنی سے سیاسی مفاد کیلئے ملک کے مفادات کوم تاثر کر رہے ہیں۔ سماج کو تقسیم کرتے ہوئے خود اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایسا کرنے والے عناصر کی سیاسی وابستگی اور ان کے عہدے کا خیال کئے بغیر قانون کے مطابق کارروائی کرنا چاہئے ۔ انتخابی عمل کو مذہبی اثر سے پاک کرنا کمیشن کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی تکمیل میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی جانی چاہئے ۔