محبِ مولا علی ؑ حضرت میثم تمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ

   

حضرت میثم تمار اسدی کوفی رضی اللہ عنہ،مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے انتہائی قریبی ساتھی اور وفا دار تھے ۔ بعض مؤرخین نے آپ کو ایرانی اور اہل فارس لکھا ہے ، کوفہ شہر کے قریب ’نہروان‘ میں پیدا ہوئے ،یہ علاقہ عراق اور ایران کے درمیان واقع ہے ،آپ کے والد کانام یحییٰ تھا۔ لیکن چونکہ آپ قبیلۂ بنو اسد کی ایک خاتون کے غلام تھے اسی لئے آپ کو قبیلۂ بنو اسد سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ بعد میں ایک دن شیرخداسیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے انھیں اس خاتون سے خرید کر آزاد کیا۔ جب مولائے کائنات علیہ السلام نے اِن سے نام پوچھا تو انھوں نے عرض کیا :’’ میرا نام سالم ہے ‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ رسول اکرم ﷺنے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عجمی والدین نے تمہارا نام ’ میثم ‘ رکھا تھا ۔یہ سنتے ہی حضرت میثم پر دہشت طاری ہو گئی اور بول اُٹھے ’’ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا:کیوں کہ ان کے اصل نام کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ‘‘۔ اس کے بعد مولا علی ؑنے فرمایا :اپنے نام کی حفاظت کرنا اور اپنی کنیت’ ابو سالم‘ قرار دینا ۔سیدنا مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے آزاد کرنے کے بعد انھوں نے کوفہ کے بازار میں کھجوریں بیچنا شروع کر دیں، اس وجہ سے آپ کو ’تمار‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ نے آزاد ہونے کے بعد سادہ زندگی گزارنا شروع کردی ،آپ کے دل میں دو چیزیں پرورش پا رہی تھیں ۔ ایک علوم ومعارف کی طرف رغبت ،دوسری سیدناعلی المرتضیٰ ؑسے والہانہ محبت ۔ سیدنا علی المرتضیٰؑ جب ان سے گفتگوکرتے تو آپ بڑے انہماک اور کمال توجہ سے سماعت کرتے ، انھوں نے مولا علی ؑسے علم و دانش اور فضیلت کے انوار حاصل کئے ،ان میں سے اہم علوم تفسیر قرآن اوراسرارِ معرفت تھے ۔ آپ پر محبت ومودّت سیدناعلی المرتضیٰ ؑکا ایسا رنگ چڑھا تھا کہ آپ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اپنی ہر محفل میں ہر اک کو شیرخدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی عظمت وفضیلت کی طرف متوجہ کروں ۔آپ علوم اسرار سے واقف اور بڑے دور اندیش تھے ،وہ بہت سے آنے والے حوادث اور فتنوں سے آگاہ تھے ۔جس طرح میثم تمار رضی اللہ عنہ نے خودساری زندگی اہل بیت اطہار علیہم السلام کی خدمت میں بسر کی اسی طرح ان کے دو بیٹے شعیب بن میثم اور صالح بن میثم بھی اہل بیت کرام علیہم السلام سے مودّت رکھتے تھے ، انھوں نے سیدناامام جعفر صادق اورسیدنا امام محمد الباقر علیہما السلام کی صحبت پائی آ پ نے سانحہِ کربلا کی پیش گوئی کی تھی، آپ جب قید ہوئے تو مختار ثقفی کوکہا کرتے تھے کہ تم قید سے رہائی پاکرسیدناامام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے خلاف انقلاب بپا کرو گے اور ہمارے قاتل ابن زیاد کو قتل کرو گے ، انھوں یہ بھی پیشین گوئی کی تھی کہ کوفہ میں سیدنا مسلم بن عقیل علیہما السلام کی شہادت ہوگی ،ان کی تمام پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں۔‘‘ مولائے کائنات علیہ السلام نے میثم تمار رضی اللہ عنہ کو ان کی شہادت سے آگاہ فرمایا تھا، ایک دن مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا :’’اے میثم!میرے بعد تمہیں گرفتار کیا جائے گا اور پھانسی پر لٹکایا جائے گا ، دوسرے دن تمہارے منہ اور ناک سے خون بہے گا اس طرح کہ تمہاری داڑھی رنگین ہوگی اور تیسرے دن ایک ضرب سے تمہارا پیٹ چاک کر دیا جائے گا،یہاں تک کہ تمہاری جان نکل جائے گی ،اس کے انتظار میں رہنا ، تمہاری دار(پھانسی) کی جگہ عمر وبن حریث کے گھر کے سامنے ہوگی ،اور تو دسواں شخص ہوگا جسے دار پر چڑھایا جائے گا، تمہاری دار کی لکڑی دوسروں کی نسبت چھوٹی ہوگی ،میں اس خرما کے درخت کو تجھے دکھا دوں گا،اور دوسرے دن اس خرما کے درخت کو انھیں دکھلا دیا۔‘‘ آپ ۶۰ ہجری میں زیارت ِبیت اللہ شریف کے لئے روانہ ہوئے جس سال سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا ،آپ نے خانہ کعبہ کی زیارت کے بعد کوفہ کا رخ کیا ۔ادھر کوفہ کے حالات درہم برہم ہوچکے تھے ،سیدنا مسلم بن عقیل علیہما السلام کوا بن زیاد نے شہید کروا دیا تھا ،ابن زیاد ڈر گیا تھا کہ اگر میثم رضی اللہ عنہ کوفہ میں قدم رکھیں گے تو لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیں گے ، اس لئے حکم دیا کہ انھیں کوفہ داخل ہونے سے پہلے گرفتار کر لیا جائے ، بالآخر وہی کچھ ہوا جس کی خبر پہلے دے دی گئی تھی ، آپؓ ۲۲ ذی الحجہ ۶۰ہجری کو جام ِ شہادت نوش فرما کر مالک حقیقی سے جاملے ۔آپ کا مرقدمسجد ِ کوفہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر نجف کی اصلی سڑک کے کنارے پر واقع ہے ۔
(مصادر:الاصابہ فی تمییز الصحابہ، زیارات مقدسہ )