مخلوط حکومتیں بہتر حکمرانی کی ضامن

   

پی چدمبرم
ایک ایسا وقت بھی تھا جبکہ ایک آئیڈیا یا ایک نظریہ مختلف ریاستوں کے عوام، مختلف زبانیں بولنے والوں، مختلف عقائد کے ماننے والوں، مختلف ذاتوں میں پیدا ہونے والوں اور معاشرہ کے مختلف معاشی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو مضبوط بندھن میں باندھے رکھتا تھا اور سیاسی جماعتوں کا قیام بھی ایک آئیڈیا یا نظریہ کی بنیاد پر عمل میں لایا جاتا تھا۔ ہندوستان میں اس کی بہترین مثال انڈین نیشنل کانگریس ہے جس کا آغاز 1885 میں ہوا۔ کانگریس کے بانیوں کا اصل مقصد تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لئے حکومت میں ایک عظیم تر حصہ حاصل کرنا اور ان ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان مذاکرات کے لئے ایک پلیٹ فارم پیدا کرنا تھا۔ اس وقت آزادی حاصل کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں تھا یعنی کانگریس کا جس وقت آغاز ہوا اس وقت انگریزوں سے آزادی کے حصول کی بات ذہنوں میں نہیں تھی۔ آزادی کا خیال بہت بعد میں 1919 اور 1929 کے درمیان لوگوں کے ذہنوں میں آیا۔ جہاں تک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا سوال ہے اس نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ نظریہ اور آئیڈیا کے تعلق سے اس کی دوسری مثال لی جاسکتی ہے۔ ہم نے پہلے کانگریس کی مثال پیش کی اور دوسری مثال آر ایس ایس ہے۔ اس کے ارکان جس نظریہ پر کاربند ہیں وہ ہندو راشٹر ہے۔ آر ایس ایس نے اپنے ابتدائی دور میں اپنے نظریہ کا کیا مطلب لیا ہے وہ الگ بات ہے لیکن وہ اپنے نظریہ پر سختی سے کاربند ہے اور اب ہندوستان میں ایک ناگوار و دوسروں سے نفرت کرنے اور وہ بھی انہیں حملہ آور یا غیر ملکی باشندے قرار دینے کے نظریہ کو اپناکر مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، مہاجرین اور خواتین کے ساتھ ساتھ غیر ہندی داں افراد و دیگر پسماندہ طبقات کو نشانہ بنایا گیا۔ ریاستی سطح پر اس طرح کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ تاملناڈو اگر آپ دیکھیں تو ڈی ایم کے کا قیام علاقائی فخر، تاملوں کے لئے پیار، عزت نفس، مخالف توہم پرستی اور مخالف ذات پات کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا لیکن وہیں آل انڈیا انا ڈی ایم کے، کرپشن کے خلاف لڑائی کے نتیجہ میں منظر عام پر آئی۔
جہاں تک نظریات کا سوال ہے کوئی بھی نظریہ تبدیلی کے بنا نہیں رہتا۔ نظریہ میں تبدیلی ضرور آتی ہے۔ کانگریس نے برسوں آزادی حاصل کرنے کا عہد کیا۔ قدامت پسندوں اور ترقی پسندوں کو اپنے ساتھ بنائے رکھا پھر بائیں بازو کی جماعتوں سے دوستی کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ سیکولرازم اور سوشل ازم کو اپنایا۔ مرکز کی جانب منتقلی عمل میں لائی۔ مارکٹ اکانامی کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ بہبودی اقدامات پر عمل کیا اور اب وہ اپنی اقتصادی و سماجی پالیسیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہے۔ ان ہی خصوصیات کے باعث کانگریس، بی جے پی سے ممتاز دکھائی دیتی ہے۔ دوسری طرف اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ بی جے پی بہت زیادہ ہندو قوم پرست اور بہت زیادہ سرمایہ دارانہ سوچ رکھنے والی پارٹی بن گئی ہے۔ دوسری جانب کمیونسٹ جماعتوں نے ہمہ جماعتی جمہوریت کو قبول کرلیا ہے۔ علاقائی جماعتوں نے بھی اپنی پالیسیوں اور موقف میں اعتدال پسندی کی راہ اختیار کی ہے۔ مثال کے طور پر ڈی ایم کے سے ٹوٹ کر الگ ہونے والی اے آئی اے ڈی ایم کے خدا کے وجود کی قائل پارٹی کہی جاتی ہے اور ڈی ایم کے نے حالیہ برسوں کے دوران واضح طور پر بے دین یا ملحد ہونے سے متعلق اپنے موقف کو چھپا دیا ہے۔
میں نے ان جماعتوں اور بدلتے نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔ ہر نظریہ میں ایسا لگتا ہے کہ دھرم کے ماننے والے شامل ہیں۔ لیکن یہ بھی لگتا ہے کہ دھرم کے منکر بھی شامل نہیں کئے گئے جن کے ووٹ اور تائید و حمایت اسی طرح ضروری ہے جس طرح دھرم کے ماننے والوں کے لئے ووٹ ضروری ہے۔ اس طرح اس رجحان میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ دھرم کے ایسے نا ماننے والے جنہوں نے خود کو اس عمل میں شامل نہیں پایا ایسی سیاسی جماعتیں قائم کیں جن سے ان کی ہمدردیوں یا نفرتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح عجیب و غریب نفرتیں کانگریس (او) اور کانگریس (آر)، جنتادل، ایس پی، این سی پی، بی جے ڈی اور تلگودیشم کے قیام کا باعث بنی اور ایک علیحدہ ریاست یا مزید خود مختاری کی خواہش نے ٹی آر ایس اور اے جی پی جیسی جماعتوں کو منظر عام پر لایا۔
غیر مشمولیاتی سیاست
مذکورہ تمام عمل کے باوجود معاشرہ کا ایک قابل لحاظ حصہ ان میں شامل ہونے سے رہ گیا یا اس میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسے جان بوجھ کر اس عمل میں شامل نہیں کیا گیا، یونہی چھوڑ دیا گیا۔ اس طبقہ کا ہنوز یہی احساس ہے کہ کئی سیاسی جماعتوں نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے ایسے طبقات میں مسلمان اور دلت بھی شامل ہیں۔ ایسے طبقات کی کسی بھی طرح فرقہ پرست یا ذات پات کی وکالت کرنے والے کے طور پر مذمت نہیں کی جاسکتی جب تک یہ طبقات مرکزی سیاست سے خارج نہیں کئے جاتے تب تک اپنی سیاسی جماعتیں قائم کرنے یا شروع کرنے کا جواز پیش کرسکتے ہیں۔ ان کا اخراج قانونی طور پر یا حقیقت میں ہو تب بھی میرے خیال میں ہندوستانی سیاست اور مخلوط اتحادوں کے بارے میں مرکزی خیال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ میں یہ یاد کرسکتا ہوں کہ 2017 کے گجرات اسمبلی انتخابات میں 182 نشستوں پر بی جے پی نے اپنے امیدوار کھڑا کئے لیکن ریاست میں 9.65 فیصد مسلم آبادی ہونے کے باوجود اس نے ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا۔ اسی طرح اترپردیش اسمبلی کے انتخابات جس کا انعقاد 2017 میں عمل میں آیا 402 نشستوں پر بی جے پی نے مقابلہ کیا لیکن ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 19.3 فیصد ہونے کے باوجود اس نے ایک بھی مسلم امیدوار کو مقابلہ کا موقع نہیں دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ دیگر جماعتوں نے ایک مختلف طریقہ اختیار کیا۔ مسلم امیدواروں کو میدان میں تو اتارا لیکن زیادہ تر حلقوں میں علامتی طور پر اُنہیں کو اتارا گیا۔ دلتوں کی صورت میں تمام جماعتوں نے انہیں امیدوار تو بنایا لیکن ان کے لئے محفوظ حلقے متعین کردیئے۔ اس طرح ان کا درجہ گھٹا دیا گیا اور اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ سیاسی شمولیاتی سے کہیں زیادہ سیاسی غیر شمولیاتی رہے۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر غیر مشمولیاتی طبقات نے اس ضرورت کو پہچانا کے انہیں خود کے دفاع اور اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے علیحدہ سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ آزاد ہندوستان میں کئی مسلم جماعتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انڈین یونین مسلم لیگ، اے آئی یو ڈی ایف، اے آئی ایم آئی ایم اور دوسری چھوٹی چھوٹی پارٹیاں اس میں شامل ہیں۔ مسلم جماعتوں کی طرح دلتوں نے بھی اپنی علیحدہ جماعتیں قائم کرلیں۔ بی ایس پی، ایل جے پی (بہار میں) اور بی سی کے (تاملناڈو میں)۔ تاہم آر ایس ایس اور بی جے پی نے مسلم جماعتوں کے ساتھ اتحاد سے گریز کیا جبکہ دلت سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ کئی ایک مشمولیاتی جماعتوں اور مخلوط اتحادوں نے مشمولیاتی سیاست کی راہ ہموار کی ہے۔ موجودہ انتخابات میں آسام، کیرالا، تاملناڈو اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں مسلمانوں اور دلتوں کی جانب سے قائم کردہ جماعتوں نے خود کے لئے مخلوط اتحاد میں جگہ پائی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھی علامت ہے۔ اگر یہ جماعتیں تنہا مقابلہ کرتی تو ان کے لئے قانون ساز اداروں میں داخل ہونا مشکل ہوتا اور خاموش تماشائی بنے رہنے کے لئے وہ مجبور ہو جاتے۔ یہ بھی بہتر ہے کہ یہ پارٹیاں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں داخلوں اور ملک و ریاستوں کی حکمرانی میں حصہ لیں۔ ہر جماعت نے اتحاد میں شامل ہونے یا اتحاد بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ریاستوں کے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت اپنے طور پر اکثریت حاصل کرنے کے قابل ہوسکتی ہے لیکن اس طرح کی صورتحال میں بھی وہ پارٹی دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اپنی اکثریت کو مستحکم ضرور کرے گی۔ زیادہ تر انتخابات میں مقابلہ اب مخلوط اتحادوں میں شامل جماعتوں کے درمیان ہونے لگا ہے۔ ریاستی اسمبلی کے موجودہ انتخابات میں آسام، کیرالا، تاملناڈو، مرکزی زیر انتظام علاقہ پڈوچیری میں دو وسیع تر اتحاد ایک دوسرے کے مقابل ہیں لیکن مغربی بنگال میں تین اتحاد تو موجود ہیں تاہم ان کی طاقت یکساں نہیں ہے۔ میرے تجربے کا جہاں تک سوال ہے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مخلوط حکومت بہت زیادہ ذمہ دار اور فوری ردعمل کا اظہار کرنے والی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں واجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا یہ دونوں مخلوط حکومتیں تھیں۔ ان حالات میں انتخابی اتحاد یا مخلوط حکومتوں کو ایک بہتر متبادل کہا جاسکتا ہے اور اس قسم کی حکومتیں ایک واحد جماعت کی حکومت سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور مخلوط حکومت بہتر نتائج بھی دے سکتی ہے۔