ہم پلے ہیں نازوں میں حادثوں سے کھیلے ہیں
زندگی کی راہوں میں سینکڑوں جھمیلے ہیں
ملک کی ہندی پٹی کی ریاست مدھیہ پردیش میں انتخابی سرگرمیاں تیز ہونے لگی ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے مابین راست مقابلہ میں بی جے پی کیلئے مشکل صورتحال دکھائی دینے لگی ہے ۔ کانگریس نے کرناٹک کی طرز پر مہاراشٹرا کیلئے بھی حکمت عملی تیار کی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس جیسے ماقبل انتخابات حالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ جس طرح کرناٹک میں انتخابات سے قبل کئی بی جے پی ارکان اسمبلی نے کانگریس میں واپسی کی تھی اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی ہو رہا ہے ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا کے ساتھ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میںشمولیت اختیار کرنے والے ارکان اسمبلی یکے بعد دیگرے کانگریس میں واپسی کر رہے ہیں۔ ریاست میں کرپشن کے الزامات بھی عوام کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ بی جے پی کو عوامی تائید حاصل کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ویسے تو بی جے پی بھی ریاست میںکامیابی کیلئے سیاسی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے اور انتخابی مقابلہ کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ترقیاتی مسائل ‘ عوامی شکایات کے ازالہ ‘ ترقیاتی منصوبے یا پھر فلاحی پروگرامس اور اپنی گذشتہ کئی برسوں کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے بی جے پی اور خود چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان بھی فرقہ وپرستی کی سیاست اور غیر اہم موضوعات کو اجاگر کرنے میںمصروف ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان نے ایک انٹرویو میںکہا ہے کہ مدھیہ پردیش میںآئندہ انتخابات کے بعد بھی بلڈوزر چلتا رہے گا ۔ جہاں تک بلڈوزر کی بات ہے تو بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس کا آغاز اترپردیش میں آدتیہ ناتھ نے کیا تھا ۔ اس کے بعد دوسری ریاستوں میں بھی بلڈوزر چلاتے ہوئے مسلمانوں کی جائیداد و املاک کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ان میںمدھیہ پردیش بھی شامل ہے ۔ بلڈوزر کارروائیاں در اصل مخالف مسلم ہتھیار بن گئی ہیں اور اسی تاثر کو شدت کیس اتھ اجاگر کرنے کیلئے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان نے مدھیہ پردیش میں بلڈوزر کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی کچھ عدالتوں نے بلڈوزر کارروائیوں پر شدید ریمارکس بھی کئے ہیں۔ بلڈوزر کارروائی کو مورائے قانون کارروائی قرار دیا جا رہا ہے ۔ قانون کا سہارا لینے کی بجائے متاثرین کو قانونی مدد حاصل کرنے کا موقع دئے بغیر ان کے مکانات اور دوکانات پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کی جائیداد و املاک کو منہدم کیا جا رہا ہے ۔ ان کے گھر اور تجارتی ادارے اور دوکانات وغیرہ کو زمین بوس کیا جا رہا ہے ۔ کئی فرقہ پرست عناصر کی جانب سے فخریہ انداز میں مسلمانوں کو بلڈوزروں سے دھمکانے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ بلڈوزر کو مخالف مسلم ہتھیار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور اگر ایسے میںچیف منسٹر کی جانب سے انتخابات کے بعد بھی بلڈوزر چلانے کی دھمکی اور انتباہ دیا جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور اکثریتی برادری کے ووٹ مجتمع کرنے کی کوشش کے مترادف ہی ہوگا ۔ ہندوستان میں قانون اور دستور موجود ہے ۔ ملک میں عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاںموجود ہیں۔ انہیں کام کرنے کا موقع دینے اور عدالتوں سے فیصلے صادر کروانے کی بجائے بلڈوزروں کے ذریعہ کارروائیاںکرنا قانون کی کھلی اور صریح خلاف ورزی ہے ۔ اس کے ذریعہ سے سماج میں نفرت بھی پھیلائی جا رہی ہے اور ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچایا جا رہا ہے ۔ ایسی کوششوں کو روکنے کی ضرورت ہے ۔
جس طرح سے مدھیہ پردیش میںحالات بدل رہے ہیں۔ کرناٹ کی طرح کا ماقبل انتخابات ماحول تیار ہو رہا ہے ۔ کانگریس کے امکانات ہرگذرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں اور بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی ہے تو ایسے میں بلڈوزر کا سہارا لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی غیر ذمہ دار گوشوںسے اس طرح کی بیان بازی کی جاتی تو الگ بات ہوتی لیکن خود ریاست کے چیف منسٹر اس طرح کا بیان دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور ایک مخصوص طبقہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انتہائی افسوسناک عمل ہے اور ایسی کوششوں سے عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔