مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے اپنی کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے آج کئی نئے چہروں کو شامل کیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کابینہ میں ان ارکان اسمبلی کو بھی وزارت میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب جیتنے کے بعد پارٹی سے استعفی پیش کرتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ ان ارکان کو ماہ ستمبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی ۔ ایوان کی رکنیت نہ ہونے کے باوجود وزارت میں شامل کرنا حالانکہ قانون کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اندرون چھ ماہ ایوان کیلئے انتخاب کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ ارکان اسمبلی ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میںشامل ہوئے تھے اور انہیں کی تائید کی وجہ سے بی جے پی کو اقتدار ملا تھا اس لئے اس کو غیر قانونی نہیں بلکہ غیر اخلاقی ضرور کہا جاسکتا ہے ۔ جن قائدین کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ان میں بیشتر سابق کانگریس لیڈر و موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ جیوتر آدتیہ سندھیا کے حامی ارکان ہیں۔ کابینہ میں جیوتر آدتیہ سندھیا کے حامیوں کی شمولیت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان ارکان کو وزارتی عہدوں کا لالچ دیتے ہوئے ہی کانگریس میں انحراف کروایا گیا تھا ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا کو بھی راجیہ سبھا کی نشست کا تیقن دیتے ہوئے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرنے اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے راضی کیا گیا تھا ۔ یہ ایک طرح کی سودے بازی تھی جس کی تکمیل آج شیوراج سنگھ چوہان کابینہ کی توسیع اور انحراف کرنے والے ارکان کی کابینہ میں شمولیت کے ساتھ ہوئی ہے ۔ جو الزامات بی جے پی پر اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو زوال کا شکار کرنے مرکز کے اقتدار اور پیسے کی طاقت کا بیجا استعمال کرنے کے عائد کئے جا رہے تھے ان کو آج کابینہ کی توسیع اور نئے چہروں کی شمولیت سے مزید تقویت ملتی ہے ۔ مدھیہ پردیش پہلی ایسی ریاست نہیں ہے جہاں بی جے پی نے برسر اقتدار جماعت میں انحراف کرواتے ہوئے خود اقتدار پر قبضہ کیا ہو۔ بی جے پی اس سے پہلے کرناٹک میں بھی اسی فارمولے پر عمل کرچکی ہے ۔
ہر سیاسی جماعت اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے اور پوری طاقت جھونکتی ہے ۔ عوام سے مختلف وعدے کئے جاتے ہیں۔ انہیں ہتھیلی میں جنت دکھائی جاتی ہے ۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کئی طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ انتخابی سیاست کا حصہ ہے لیکن انتخابات کا عمل پورا ہوجانے اور عوام کے ووٹ کے ذریعہ ایک حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعدیہ سلسلہ مزید پانچ سال کیلئے رک جاتا ہے لیکن حالیہ وقتوں میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بی جے پی اس طرح کے انتخابی عمل اور جمہوریت میں یقین نہیںرکھتی اور وہ صرف مرکز کے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں یقین رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کرناٹک میں ایسا ہی طریقہ اختیار کیا گیا اور وہاں کانگریس و جے ڈی ایس کے ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکساتے ہوئے مخلوط حکومت کو زوال کا شکار کردیا گیا اور خود بی جے پی نے ایوان کی عددی طاقت کا استحصال کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔ اس کے بعد سے ہی یہ اشارے دئے جا رہے تھے کہ دوسری ریاستوں میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جائیگا اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو یہ موقع جیوتر آدتیہ سندھیا نے فراہم کردیا ۔ اس کے عوض سندھیا خود راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوگئے اور ان کے حامی ارکان اسمبلی ‘ جنہوں نے کانگریس سے انحراف کیا تھا ‘ اب مدھیہ پردیش میں وزیر بنادئے گئے ہیں۔
اقتدار حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے بعد کابینہ کی تشکیل کسی چیف منسٹر کا اختیار تمیزی ہوتا ہے تاہم مدھیہ پردیش میں چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو ایک طرح سے مول بھاو کرنا پڑا اور جیوتر آدتیہ سندھیا کے حامیوں کو انہوں نے بحالت مجبوری ‘ محض اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کیلئے کابینہ میں شامل کیا ہے ۔ یہ سودے بازیوں کی اور جمہوری عمل کی دھجیاں اڑانے کی ایک مثال ہے جس کا بی جے پی ہر طرح سے دفاع کرنے پر اتر آئی ہے ۔ یہ شائد پہلی مرتبہ ہے جب کئی وزیروں کو ابھی اپنی ایوان کی رکنیت عوام سے حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے قبل اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ بی جے پی نے آج سندھیا کے حامیوں کو شامل کرتے ہوئے سودے بازی کے الزامات کو مزید تقویت فراہم کردی ہے ۔
