ہر عمل اور کاروائی کے لئے‘ یہ سوال ناگزیر ہے‘ جو مصنف نے تحریر کیا جس کا کرونا وائرس کی جانچ مثبت پائی گئی اور اسپتال میں وہ زیر علاج ہیں‘ کیاہوگا اگر ہر شہری میری طرح سونچنے اور اس پر عمل کرنے لگے؟
نئی دہلی۔ اس وقت کی بات ہے جب نصف رات کے فوری کے بعد میں ایک دوسرے شخص کے ساتھ سی او وی ائی ڈی19مثبت پائے جانے کے بعد رام منوہر لوہیاسے صفدر جنگ اسپتال منتقل کئے جارہے تھے
۔ جیسے ہی ہم سیڑھیاں پارکرکے ایمبولنس میں بیٹھے کے لئے گیٹ سے گذرے‘ وہاں پر کئی تماش بین کھڑے تھے‘ایک درجن کے قریب وہ بھی رات کے اس وقت میں یہ لوگ وہاں پر موجود تھے۔
وہ لوگ یقینا ایک محفوظ فاصلے پر تھے‘ کسی چیز کی زد میں آنے کا انہیں کوئی خدشہ بھی نہیں تھا کیونکہ ہم حفاظتی لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔
یقیناوہ لو گ اچھی طرح ہمیں دیکھنا چاہا رہے تھے۔ ہمیں بھی یہ برا نہیں محسوس ہوا کیونکہ ہم لوگ میڈیکل عملے اور ایمبولنس ڈرائیور کے ساتھ تھے‘
اس وقت تک جب ہم ایمبولنس کے دروزے تک نہیں پہنچ گئے تھے۔یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جو عام طورپرموجودہ کرونا وباء کے متعلق ہماری رویہ کے وضاحت کرتا ہے جو خوف‘ تجسس‘
لاعلمی او رجنونیت پر مشتمل ہے۔ڈبلیو ایچ اواور مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے موثر جانکاری فراہم کرنے کے اور مسلسل ہدایت اور جانکاردیاں دینے کے باوجودلوگ واٹس ایپ (یا اس طرح کے میڈیا) کو زندگی کی حفاظت کے لئے ذریعہ مانے ہوئے ہیں
یہاں پر ایک عام رحجان یہ بن گیا ہے کہ متاثرہ یا اس طرح کے مریضوں کو ایک خطرناک مجرم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
میں نے ایسی رپورٹس کا بھی مطالعہ کیاہے کہ اسی علاقے میں رہنے والے ایک فرد نے طبی نگرانی یا تنہائی میں رہنے والے افراد کوتازہ ہوا لینے کے لئے گھر سے باہر ان کی بالکونی میں آنے کی تک اجازت نہیں دے رہے ہیں‘
یہاں تک ان کا فاصلے 10-15میٹر کا ہے۔ یہ سمجھ لیں‘ مذکورہ لوگوں کا اعتراض ناخواندگی کاشکار ہے‘ یہ عام طور پر جانتے ہیں کہ مذکورہ وائرس اتنے دور تک نہیں جاسکتا ہے‘
مگر ان کے ذہن میں اپنی اہمیت ہے‘ وہ کوئی موقع دینا نہیں چاہتے ہیں۔ اس کے فوری بعد ہوسکتا ہے کہ وہ اسی ہوا میں سانس بھی نہ لیں۔
ہم ناقابل فہم دوسری جنگ عظیم کاکے منظر ناموں کا انحطاط کرسکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کے مثالی خدمات او رحوصلہ کو فراموش کررہے ہیں۔
ان الفاظ کے اندر میں ڈاکٹرس‘ نرسوں‘وارڈ بوائزاو ردیگر عملے کو ان کے کام کے متعلق دیکھ سکتے ہیں جو بلاخوف کام کررہے ہیں۔
حالانکہ وہ حفاظتی لباس زیب تن کئے ہوئے مگر یہ بھی نہ بھولیں وہ ان افراد کی دیکھ بھال کررہے ہیں جو کرونا وائرس کی وباء سے متاثر لوگ ہیں۔
ان کے قریب ہیں خون کے نمونے لے رہے ہیں‘ بخار کی جانچ کررہے ہیں‘ بلڈ پریشر پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہیں ادوایات دے رہے ہیں۔
وارڈ میں میری کسی ایک سے ملاقات ہوئی ہے جس کو جانچ میں وائرس مثبت پایاگیا ے کیونکہ وہ سی او وی ائی ڈی19سے متاثرہ مریض کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔
وہ فرد کو کیا احساس ہوگا جب اس کے گھروالوں اس کو خطرناک وباء کے طور پر برتاؤ کریں گے؟وہ کم سے کم ہمدردی کے مستحق ہیں۔
یہ درست ہے کہ جنتا کرفیو کے دوران خیال رکھنے والے عملے کے خدمات کو اجاگر کیاگیاہے۔
یہ نگرانی کرنے والے عملے کے ہی بات نہیں ہے بلکہ ہزاروں میڈیکل پروفیشنل‘ ڈاٹا سائنس داں‘ لیب ٹیکنیشن‘ اور مختلف عہدیداروں کی بات ہے جو اس جنگ میں سب سے آگے کھڑے دیکھائی دے رہے ہیں۔
پرائیوٹ شہریوں نے بھی شہری رویہ اورجذبات کا مظاہر کیاہے۔
ان سے ہم تمام کو مثال لینے کی ضرورت ہے۔اخلاقی فلسفیوں کی روش سے تجربہ حاصل کرتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل فکر انگیز تجزیہ کرسکتے ہیں۔ہر عمل اور کاروائی کے لئے‘
یہ سوال ناگزیر ہے‘ جو مصنف نے تحریر کیا جس کا کرونا وائرس کی جانچ مثبت پائی گئی اور اسپتال میں وہ زیر علاج ہیں‘
کیاہوگا اگر ہر شہری میری طرح سونچنے اور اس پر عمل کرنے لگے؟