مذہبی آزادی خطرہ میں اور آر ایس ایس، بی جے پی کے بہانے

   

رام پنیانی
ہندوستان نے گزشتہ 40 برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے اور انہیں مختلف بہانوں سے نشانہ بنانے کے بے شمار واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ خاص طور پر اگر دیکھا جائے شہادت بابری مسجد کے بعد ملک کے کونے کونے میں فرقہ وارانہ تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے اور ہندوستان نے ملک کی اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں ایسے فرقہ وارانہ تشدد کا مشاہدہ کیا جس میں کم از کم ہزار انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران ملک میں پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد کی بات کی۔ ان میں سال 1999ء کو اوڈیشہ میں پیش آئے دل کو دہلادینے والے واقعہ نے دنیا بھر میں خاص طور پر عیسائی ملکوں میں ہندوستان کی شبیہ متاثر کرکے رکھ دی۔ اس وقت فرقہ پرستوں نے پاسٹر گراہم اسٹین اور ان کے دو کمسن بیٹوں کو زندہ جلادیا۔ اس وقت کے صدرجمہوریہ ڈاکٹر کے آر نارائنن نے اس ہولناک واقعہ کو بدترین و سیاہ ترین کارناموں میں شمار کیا۔ دوسری طرف سال 2002ء میں گجرات (اس وقت ریاست گجرات میں نریندر مودی عہدہ چیف منسٹری پر فائز تھے) جیسی ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور اس بھیانک قتل و غارت گری کیلئے گودھرا ٹرین آتشزدگی کو بہانہ بنایا گیا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ گودھرا ٹرین میں سوار کارسیوکوں کو ہلاک کرنے کیلئے ٹرین میں آگ لگائی گئی۔ اس واقعہ کے بارے میں اس قدر زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی گئیں جس کے نتیجہ میں لوگ مذہبی خطوط پر تقسیم ہوگئے اور سب نے دیکھا کہ فسادات کے بعد ہوئے انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی ملی۔ گجرات فسادات کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا گیا بعد میں سوامی لکشما ننداسرسوتی کے قتل کا بہانہ بنا کر کندھامل میں بڑے پیمانے پر فساد برپا کیا گیا۔ یہ واقعہ 2008ء میں پیش آیا اور فرقہ پرست تنظیموں نے سوامی لکشمانندا سرسوتی کے قتل کیلئے ماوسٹوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس کا نتیجہ گرجاگھروں پر حملوں کی شکل میں برآمد ہوا اور سارے ملک نے دیکھا کہ بے شمار بے قصور انسانوں کو وہاں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 2013ء میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے مظفرنگر میں مسلم کش فسادات برپا کئے گئے (جس میں کثیر تعداد میں مسلمان مارے گئے۔ درجنوں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کے شرمناک واقعات بھی پیش آئے) دارالحکومت دہلی میں سال 2019ء میں بڑے پیمانے پر فسادات بھڑکائے گئے جس میں مذہبی اقلیت کا زبردست جانی و مالی نقصان ہوا۔ راقم نے سطوربالا میں فرقہ وارانہ فسادات کے جن واقعات کا حوالہ دیا ہے یقینا وہ ہندوستانی تاریخ کے بدترین فسادات میں سے چند ایک ہیں۔ فرقہ پرستوں اور ان کے سرپرستوں نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ذبیحہ گاو (گاوکشی) اور لوجہاد کے ذریعہ بھی فرقہ وارانہ تشدد کی آگ مزید بھڑکائی۔ باالفاظ دیگر ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ نریندر مودی حکومت نے سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کے نام پر مسلمانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ مودی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو پارلیمنٹ میں منظور بھی کروایا حالانکہ یہ قانون مذہب پر مبنی ہے۔ اس میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، میانمار جیسے ملکوں سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں اور جین مذہب کے ماننے والوں کو ہندوستانی شہریت عطا کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی لیکن مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یہ بہانے تراشے گئے کہ عیسائیوں کے اجتماعات میں ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرواکر انہیں عیسائی بنایا جارہا ہے اور ان بہانوں سے عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات پر بھی حملے شروع کئے گئے۔ اس کے نتیجہ میں بھی اقلیتوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی یا پیدا کی گئی۔ عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات پر حملوں میں چند دہوں سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ واقعات اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے اور مختلف اشکال میں مذہبی آزادی سے متعلق قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں جبکہ اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مختلف ریاستوں میں مذہبی آزادی سے متعلق قانون پر مؤثر عمل آوری سے گریز کیا گیا انہیں (ان قوانین کو) غیرذمہ دارانہ انداز میں نافذ کیا گیا اور دیکھا جائے تو یہ قوانین حقیقت میں کسی شخص کے مذہب پر عمل کرنے میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ مذہب پر چلنے اس پر عمل کرنے میں اس رکاوٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کی لہر نے انہیں پوری طرح خوفزدہ کردیا ہے۔ سارے ملک نے 2024ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران نفرت و اشتعال انگیز بیانات و تقاریر کا سلسلہ بھی دیکھا ہے۔ حد تو یہ ہیکہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کئے جانے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جو اب بھی جاری ہے اور حکومت نے پھر سے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے نفاذ کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جو NRC کے ساتھ لیکر لاکھوں مسلم شہریوں کو ملک سے باہر کرنے اور قانونی تحفظ کے بغیر ملک چھوڑنے کے خطرات پیدا کرتا ہے۔ بہرحال بی جے پی حکومت کی کارروائیوں اور قوانین کے ساتھ ساتھ ہندوتوا سیاست سے ہندوستان کا جو امیج بن رہا ہے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہہ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کا اندازہ دنیا بھر میں وقفہ وقفہ سے جاری ہونے والے اشاریوں سے ہوتا ہے جو جمہوریت اور آزادی سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان اشاریوں میں ہندوستان کا مقام گرتا ہی جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیسے مودی حکومت اور حکمراں جماعت کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اس گرے ہوئے امیج سے نمٹتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت سرکاری یا حکومتی سطح پر ان ایجنسیوں کو تسلیم نہیں کرتی جو بطور خاص انسانی حقوق کی درجہ بندی کی نگرانی کرتی ہیں۔ اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے تو حکومت کا یہ موقف ہوتا ہیکہ یہ ہمارے ملک کا داخلی معاملہ ہے یا یہ ہمارے ملک کے داخلی امور ہیں۔ اس کے برعکس پڑوسی ملکوں میں ہندوؤں پر جب ظلم و جبر ہوتا ہے ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو یہی حکومت چیخ و پکار کرتی ہے۔ اچھی بات ہیکہ ظلم کے خلاف آپ آواز اٹھاتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں میں ہندوؤں پر ہونے والے مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن حکومت اس مسئلہ پر دوغلے پن کا مظاہرہ کرتی ہے دوہرا معیار اختیار کرتی ہے۔ اسے اس طرح کے دوغلے پن سے گریز کرنا چاہئے۔ ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں کی بگڑتی حالت کو مزید کمزور کرنے کی ایک حکمت عملی کے تحت آر ایس ایس، بی جے پی کے لیڈر رام مادھو نے نے اب اپنے ایک مضمون میں استدلال پیش کیا ہیکہ مذہبی آزادی کو دیکھنے یا پرکھنے کا موجودہ طریقہ Eurocentric ہے یعنی اسے یوروپ کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آر ایس ایس و بی جے پی کے اس لیڈر رام مادھو کے مطابق مغل افواج نے ہندوؤں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ رام مادھو نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملک کی تقسیم اور تخلیق پاکستان کیلئے مسلم لیگ کو پوری طرح ذمہ دار قرار دیا لیکن رام مادھو کے دعوؤں اور ان کے نقطہ نظر کے برعکس مہاتما گاندھی کا نقطہ نظر ہے جنہوں نے تحریک آزادی میں مجاہدین آزادی کی قیادت کی۔ گاندھی جی نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوستان کی جڑوں میں پیوست اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھتے دیکھا۔ ان ہی خطوط پر ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے ہندوستانی تہذیب کو ایک مشترکہ تہذیب کے طور پر دیکھا۔ دوسری طرف مذکورہ تصور کو بی جے پی رہنما دین دیال اپادھیائے نے بھی پیش کیا۔ ان کے نظریہ کے مطابق ہندوستان کو پہلے مسلم بادشاہوں نے غلام بنایا اور پھر انگریزوں نے اس پر حکومت کی دین دیال جیسے لوگوں کا سیاسی نظریہ دراصل ہندو معاشرہ میں پھیل چکی بہت سی خرابیوں کو ہندوستان میں مسلم بادشاہوں کی آمد کا باعث قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ذات پات پر مبنی امتیاز اور صنفی امتیاز اور تعصب و جانبداری جیسی برائیوں کا ہندوؤں کی قدیم تحریروں میں بھی ذکر ملتا ہے اس کا ثبوت یہ ہیکہ کئی مسلم بادشاہوں کے انتظامیہ میں اعلیٰ ذات کے ہندو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔