رام پنیانی
بی جے پی کی معطل ترجمان نوپور شرما کا ٹی وی پر پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق گستاخانہ بیان اور ان کے ساتھی نوین کمار جندال کے گستاخانہ ٹوئٹ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پولیس فائرنگ، گرفتاریوں اور بلڈوزروں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس وقت نوپور شرما کا بیان منظر عام پر آیا، اُس وقت کچھ احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور حکومت اس وقت تک خوابِ غفلت میں پڑی رہی، باالفاظ دیگر سوتی رہی جب تک 15 سے زائد مسلم اکثریتی ملکوں نے ہندوستانی سفیروں کو طلب کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں میں اپنے احتجاجی مکتوب تھمادیئے۔
جہاں تک ہندوستان اور عرب ملکوں کے باہمی تعلقات کا سوال ہے، یہ تعلقات ہمیشہ سے ہی خوشگوار رہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ملکوں میں تقریباً 8 ملین ہندوستانی ورکرس خدمات انجام دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے خاندانوں اور ملک کی مدد کررہے ہیں۔ ان عرب ملکوں میں برسرکار ہندوستانی تارکین وطن ایک بڑی رقم ہر ماہ ہندوستان کو روانہ کرتے ہیں جو سالانہ کئی ارب ڈالرس ہوتے ہیں۔ جن عرب ملکوں نے نوپور شرما اور نوین جندال کے گستاخانہ بیان اور ٹوئٹ کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ان میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو ہمارے ملک کو اس کی ضروریات کی 40% گیاس سربراہ کرتا ہے۔ دوسرے ممالک ہندوستان کو نہ صرف تیل سربراہ کرتے ہیں بلکہ وہ ہندوستانی مصنوعات کیلئے اچھے بازار بن گئے ہیں۔ جہاں اربوں ڈالرس مالیتی ہندوستانی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں چنانچہ ان ملکوں سے جہاں ہندوستان کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، وہیں بے شمار تجارتی فوائد بھی ہندوستان حاصل کرتا ہے۔ بہرحال جیسے ہی عرب ملکوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا اور حکومت ہند سے اپنا احتجاج درج کروایا تب کہیں جاکر حکومت نے دونوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ دوست عرب ملکوں کی برہمی کو روکا جائے اور ان کے غصہ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ عرب ملکوں میں پیدا برہمی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے اپنے دونوں ترجمانوں کو فرقہ پرست اور مایوس عناصر قرار دیا۔ واضح رہے کہ نوپور شرما حکمراں بی جے پی کی قومی ترجمان تھی جبکہ نوین کمار جندال بی جے پی دہلی یونٹ کا میڈیا انچارج تھا۔ بی جے پی نے نوپور کو پارٹی سے معطل اور نوین کمار جندال کو برطرف کیا لیکن ابھی تک دونوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ دونوں نے معذرت خواہی بھی کی تاہم اس سارے معاملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی معنی خیز خاموشی سب کو کھٹک رہی ہے۔ انہوں نے ایسے خاموشی اختیار کرلی جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں اور جیسے انہیں کچھ پتہ ہی نہیں۔
ابتدائی احتجاجی مظاہرے
نوپور اور جندال کے گستاخانہ ریمارکس کے خلاف ابتدائی احتجاجی مظاہرہ میں جو اُترپردیش کے کانپور میں کیا گیا، وہاں 34 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں انتظامیہ اور پولیس پر یکطرفہ کارروائی کے الزامات عائد کئے گئے، پھر چند گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ 10 جون کو جھارکھنڈ کے رانچی میں احتجاجی مظاہرہ میں ہوا جس میں دو احتجاجی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ اسی طرح کے واقعات جیسے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں فائرنگ میں ان کی اموات اور پولیس حراست میں ان کی ظالمانہ انداز میں پٹائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون اور قانون کا تحفظ کرنے والے حکام کہاں ہیں؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پولیس ملزم کو زدوکوب کرسکتی ہے؟ ایک سوال تو بڑی شدت سے پوچھا جارہا ہے کہ آیا بناء کسی مناسب قانونی نوٹس اور کارروائی کے مکانات کو منہدم کیا جاسکتا ہے؟ ان تمام واقعات پر اب ہمارے ملک میں ہر کوئی یہ سوال بھی کرنے لگا ہے کہ آیا عدلیہ بیکار ہوگئی ہے۔ اس کی فعالیت اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے؟ کیا مقننہ خوشی خوشی خود قانون بن سکتی ہے؟
مسلم دشمنی
ان واقعات کے تناظر میں کئی لوگوں نے اپنی ہاؤزنگ سوسائٹیز میں مسلم سبزی فروشوں کا بائیکاٹ کیا، مسلم بنڈی رانوں اور تاجرین کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی گئیں، پھر ایسے ہی بائیکاٹ کی اپیلیں، حجاب، حلال میٹ، کھلے مقامات پر نمازوں کی ادائیگی اور اذان کو مسئلہ بناکر کی جانے لگیں، اس طرح یہ مسلمانوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ستانے کے آلات بن گئے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دھرم سنسد کس وقت منعقد کئے گئے اور کس طرح ان دھرم سنسدوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر زور دیا گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو اشتعال دلاکر انہیں پھنسانے کیلئے رام نومی جلوس کو استعمال کیا گیا، غرض مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ آدھے سچ اور جھوٹے واقعات پر مبنی ایک متعصب فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کو خود آر ایس ایس کے سربراہ اور ان لوگوں نے فروغ دیا جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مختلف برادریوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے اور نفرت کا ماحول بنانا، اس فلم کا مقصد تھا جس کے باعث ہی فلم کے اختتام پر تھیٹروں میں مسلمانوں کے خلاف نعرے بلند کئے گئے۔ صورتحال اس قدر ابتر بنا دی گئی کہ ’’جینوسائیڈ واچ‘‘ کے گریگوری اسٹانٹسن نے یہ انتباہ دیا کہ جہاں تک مسلمانوں کے قتل عام کا سوال ہے، ہندوستان اس معاملے میں جو پیمانہ ہے، اس پیمانے کی 10 سطحوں میں سے 8 ویں سطح پر آگیا ہے اور ملک میں مسلمانوں کا قتل عام صرف دو قدم دور ہے۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا۔ خلیجی ممالک اور دوسرے مسلم اکثریتی ملکوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی کیونکہ حقوق انسانی کے معاملے میں خود ان کا ریکارڈ مایوس کن تھا۔
اقوام متحدہ کا انتباہ
عالمی مذہبی آزادی سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن کی اپنی سالانہ رپورٹ 2022ء ہندوستان کے خطرناک حالات کی آئینہ دار تھی، اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد اور ہراسانی پر خاموش ہیں۔ بہرحال ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو آگے آتے ہوئے دستور کی پامالی کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں بلڈوزر (ناانصافی) اور پولیس حراست میں مسلم نوجوانوں کو دی جارہی ہے، اذیتوں کے خلاف آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح کرنا ہے کہ ایسے ٹی وی مباحث کے ذریعہ بھی فضاء مکدر کی جارہی ہے جہاں جاہل ملاؤں اور پنڈتوں کو بلاکر ان کی زبانوں سے ایک دوسرے کے مذاہب کے خلاف زہر اُگلوایا جارہا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مذہب محبت کا دوسرا نام ہے اور نفرت مذہب کا نہیں بلکہ تخریبی سیاست کا حصہ ہے۔
گاندھی جی کی یاد
ٹی وی مباحثوں سے مذہبی موضوعات کو دُور رکھا جانا چاہئے۔ ایک دوسرے کے جذبات مجروح کرنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ مذہبی مقامات کی بنیاد پر سیاست اور اس سے متعلق جذباتی مسائل پر ملک کے قانون کو نظر رکھنی چاہئے۔ آج ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مہاتما گاندھی کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کہا تھا کہ میں دنیا کے تمام مذاہب کی سچائی میں یقین رکھتا ہوں۔