اس دَور میں اقوام کی صُحبت بھی ہُوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
حکیم الامت علامہ اقبالؔ دین اسلام کے عظیم فلسفہ ’’وحدت انسانیت ‘‘ کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قومیت کا مسئلہ ’’دین ‘‘ پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہودیوں کی طرح کوئی نسلی امتیاز ہے اور نہ ہی وہ عیسائیوں کی طرح مذہب شخصی اور نجی مسئلہ اور قومیت سیاسی مسئلہ ہے ۔ بلکہ اسلام کی نظر میں حقیقی قومیت ساری انسانیت کی جمعیت ہے ۔
تفریقِ مِلل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیّتِ اقوام کہ جمعیّت آدم!
نسل درنسل سے مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں۔ اِس کی آزادی ترقی اور فلاح و بہودی میں اِن کا خون پسینہ شامل ہے۔ شومۂ قسمت کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کو سوالیہ نشان اور مشکوک کرنے کی ناکام کوششیں جاری ہیں اور ہندو مسلم انتشار کو پھیلانے میں طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو یہ ممکن نہیں بلکہ وطن کی ایک ایک شئی سے محبت فطری ہے۔ مسلم شریف میں ہے نبی اکرم ﷺ سے دعاء منقول ہے : ’’اے پروردگار ! تو ہمارے لئے ہمارے کھجوروں میں برکت عطا فرما ، ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطافرما، ہمارے لئے ہمارے ’’صاع‘‘ (مخصوص پیمانے) میں برکت عطا فرما ۔ اے پروردگار ! ابرا ھیم علیہ السلام تیرے بندے ، خلیل اور نبی ہیں اور میں تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کے لئے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے وہی بلکہ اس کے دُو چند اضافے کی دعاء کرتا ہوں ‘‘۔ (مسلم شریف)
ہندوستان ہمارا وطن ہے، اس میں متعدد مذہب وملت کے ماننے والے موجود ہیں ہم مسلمان اپنی اسلامی تہذیب و شناخت کو باقی رکھتے ہوئے برادرانِ وطن سے میل ملاپ ، تعلقات، رواداری غمخواری ، حسن سلوک ، تیمار داری اور دیگر معاشرتی ، سیاسی اور سماجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات روا رکھیں گے ۔ مذہبی منافرت کو پھیلا کر ہندو مسلم کو بانٹنے کی جو کوششیں ہور ہی میں مشترکہ طور پر اس کے لئے اقدامات کرنا ناگزیر ہے تاکہ ہندوستان کا سیکولرزم اور جمہوری نظام لرزہ بر اندام نہ ہو اور یہی گنگا جمنی تہذیب بھی ہندوستان کے مسلم دورِ حکومت میں نظر آتی تھیں۔
افسوس کہ آج ہندوستان میں ایک طبقہ اسلام سے متعلق زہر افشانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے اور جو نہی موقع ہاتھ آئے ہندوستان میں مسلم دور ِحکمرانی کو ہدف تنقید بناتا ہے۔ بادشاہ جہانگیر توزک جہانگیری میں اپنے والد جلال الدین اکبر کے پرامن عہد کی خصوصیات کو بیان کرتےہوئے رقم طراز ہے:
’’ارباب ملل مختلف را در دسعت آباد دولت بے بدیلش جا ، بخلاف سائر ولایاتِ عالم کہ شیعہ را بغیر از ایران وسُنی را در (بغیر از ) روم و ہندوستان و توران جا نیست ۔ چنانچہ در دائرہ وسیع الفضائے رحمتِ ایزدی جمیع طوائف و اربابِ ملل را جا ست بمقتضائے آنکہ سایہ می باید کہ پر توِ ذات باشند ۔ در ممالکِ محروسہ اش کہ ہر حدے بہ کنارِ دریائے شور منتہی گشتہ۔ اربابِ مِلتہائے مختلف و عقیدت ہائے صحیح و ناقص را جا بودہ را ، تعرض بستہ گشتہ ۔ سنی با شیعہ در یک مسجد و فرنگی با یہودی در یک کلیسا طریقِ عبادت می سپردند۔ صلح کل شیوۂ مقرر ایشاں بود ۔ بائیکاں و خوباں کہ ہر دین و آئین محبت می داشتند و بقدر حالت و فہمیدگی التفاتہائے فرمووند ۔ (توزک جہانگیری ،ص ۱۷ )
متذکرہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ اس وسیع و عریض حکومت میں تمام مذاہب و ادیان کے لوگ آپس میں صلح صفائی سے رہتے تھے ۔ برخلاف اس عمومی تاثر کے کہ شیعوںکے لئے ایران اور سنیوں کے لئے روم ہندوستان اور توران کے علاوہ رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ پس ممالک محروسہ کے تمام لوگ آپس میں شیرو شکر ہوکر رہتے تھے۔ سنی اور شیعہ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ۔ عیسائی اور یہودی ایک ہی کلیسا میں عبادت کرتے تھے۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان محبت اخوت اور صلح جوئی کا رشتہ قائم تھا اور تمام لوگ ایکدوسرے کے ساتھ شفقت و محبت اور التفات ملحوظ رکھتے ۔
شیخ محمد اکرام اپنی تصنیف ’’رود کوثر‘‘ میں مذکورالصدر فارسی اقتباس نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں ’’صلح کل جسکی جہانگیر نے اتنی تعریف کی ہے، اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نئی چیز نہ تھی ۔ جہاں تک مختلف مذاہب کے ساتھ رواداری اور سب طبقوں کو حکومت میں حصہ دینے کا تعلق ہے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم نے اس پر پوری طرح عمل کیا۔ کشمیر میں سلطان زین العابدین کا عہد حکومت طریق صلح کل کے لئے یادگار ہے۔ ( رود کوثر ص ۸۶)
اورنگ زیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے غیر مسلموں سے منصفانہ سلوک نہ کیا اور مغلیہ سلطنت کی رواداری کی دیرانہ روایات کو ملحوظ نہ رکھا ۔ مولانا شبلی نے اس اعتراض کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ولوبالفرض اگر اورنگ زیب عالمگیر یا کوئی دوسر امسلمان جانبدارانہ سلوک کرےتو اس سے سارا مذہب اسلام مطعون و ستم تو نہیں ہوگا ۔ اسلام کے حسن و قبح کا اندازہ قرآن کریم وسنت مبارکہ سے ہی ہوسکتا ہے جو مذہبی رواداری کے معاملہ میں بہت واضح ہیں ۔ ارشادِ الٰہی ہے: اگر آپ کا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک اُمت بنا دیتا ، وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے مگر جن پر آپ کے رب کی رحمت ہوجائے ‘‘ ( سورۃ ھود ؍ ۱۱۸) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ‘‘(سورۃ البقرہ ؍ ۲۵۶) ’’آپ نصیحت کیجئے بلا شبہ آپ تو نصیحت کرنے والے ہی ہیں ۔ آپ اُن پر مسلط نہیں ہیں ‘‘۔ (سورۂ الغاشیہ؍ ۲۱،۲۲) ’’ اور تم لوگ برا نہ کہو اُن کو جن کی یہ اللہ کے سوائے پرستش کرتے ہیں پس وہ برا کہیں گے اللہ کو بے ادبی سے ناسمجھی سے ۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقہ کی نظر میں اُس کے اعمال کو مزین کر دیا ہے۔ پھر اُن سب کو اُن کے رب کے پاس پہنچنا ہے تب وہ آگاہ کرے گا اُن کو جو وہ عمل کیا کرتے تھے‘‘۔ (سورۃ الانعام ؍ ۱۰۴) ’’وہ کہتے ہیں جنت میں ہر گز کوئی داخل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ وہ یہودی ہو گا یا نصرانی ۔ یہ سب اُن کی اُمیدیں ہیں ، آپ فرمادیجئے تم دلیل پیش کرو، اگر تم سچے ہو ‘‘۔ (سورۃ البقرہ ؍ ۱۱۱) ’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی جو سب سے اچھا طریقہ ہو اس سے رد کیجئے ‘‘ (سورۃ فصلت ؍ ۳۴) ’’آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے دعوت دیجئے اور ان سے اس طریقہ سے جدال کیجئے جو سب سے اچھا ہو کیونکہ آپ کا رب زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے ۔ (النحل؍ ۱۲۵)