تبدیلی مذہب کی عرضی پر سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا جواب
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے دھوکہ دہی، دباؤیا لالچ کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں داخل حلف نامہ میں حکومت نے کہا ہے کہ 9 ریاستوں نے اسے روکنے کے لیے قانون بنایا ہے۔ مرکزی حکومت بھی ضروری اقدامات کرے گی۔ سپریم کورٹ کے ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مرکز نے کہا ہے کہ مذہب کی تبلیغ کرنا بنیادی حق ہے، لیکن کسی کا مذہب تبدیل کرنا حق نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس ایم آر شاہ کی سربراہی میں دو ججوں کی بنچ غیر قانونی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے سخت قانون بنانے کے مطالبے کی سماعت کر رہی ہے۔ پچھلی سماعت میں عدالت نے اس قسم کی مذہبی تبدیلی کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے عرضی پر جواب طلب کیا تھا۔وکیل اور بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر کی گئی اس عرضی میں تمل ناڈو کے لاوانیا کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی گئی ہے۔ تھن جاور کی ایک 17 سالہ طالبہ لاونیا نے اس سال 19 جنوری کوجراثیم کش دوا کھا کر خودکشی کر لی تھی۔ اس سے پہلے اس نے ایک ویڈیو بنائی تھی۔اس ویڈیو میں لاونیا نے کہا کہ ان کا اسکول سیکرڈ ہارٹ ہائر سیکنڈری ان پر عیسائی بننے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس کے لیے مسلسل ہراسانی سے پریشان ہو کر وہ اپنی جان دے رہی ہے۔ مدراس ہائی کورٹ نے واقعہ کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی تھی۔ سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا۔