مذہب کے نام پر ناانصافی اور تعصب کب تک

   

رام پنیانی
جامعہ ملیہ میں سال 2019ء کو پیش آئے تشد معاملہ میں 11 طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا جس میں شرجیل امام بھی شامل تھے۔ شرجیل جے این یو کے طالب علم تھے۔ گرفتار کئے گئے دوسرے طلبہ میں صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا بھی شامل تھے۔ ان تمام کو رہا کرتے ہوئے عدالت نے جو تبصرہ کیا شاید وہ پولیس کی جانبداری اور تعصب کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ہے۔ عدالت نے کہا کہ پولیس حقیقی خاطیوں کو گرفتار کرنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہی اور یقینا اس (پولیس) نے انہیں (شرجیل امام)، صفورہ زرگر، آصف علی تنہا و دیگر) کو اس معاملے میں بلی کا بکرا بنایا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پولیس جو بھی ضمنی چارج شیٹس داخل کرتی رہی ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پرانے الزامات کو ہی دہرایا گیا ہے اور یقینا اس کا مقصد یہی ہے کہ مقدمہ کو آگے بڑھایا جائے اور ان 11 طلباء و طالبات کو جیل میں بند رکھا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو عمر خالد جیسے کئی ایسے طلباء لیڈران ہیں جو معاشرہ میں امن و امان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کررہے تھے۔ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے۔ وہ اب بھی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں، اس کے برعکس ’’دیش کے غداروں کو ، گولی مارو…‘‘ جیسا اشتعال انگیز نعرے لگانے کے بعد انوراگ ٹھاکر کو مرکزی کابینہ سے برطرف کرنے کی بجائے ترقی دے دی گئی۔ انہیں مرکزی مملکتی وزیر سے ترقی دے کر کابینی درجہ کا وزیر بنا دیا گیا۔
کووڈ۔ 19 کے آغاز کے ساتھ ہی سب ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیا ہوا اور کیسے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت دہلی میں تبلیغی جماعت کا اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں شرکت کیلئے بیرونی ملکوں سے بھی کچھ لوگ آئے تھے۔ گودی میڈیا نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور کورونا وائرس پھیلانے کا تبلیغی جماعت کے ارکان پر الزام عائد کیا۔ گودی میڈیا نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے کورونا جہاد اور کورونا بم کا نام دے دیا پھر یہ ہوا کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک بشمول بیرونی ملک سے آئے وفود کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ دوسری طرف آپ کو یاد ہوگا کہ مالیگاؤں ، مکہ مسجد اور اجمیر کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے ضمن میں بے شمار بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر شواہد کے فقدان کے نتیجہ میں ان کی رہائی عمل میں آئی لیکن ان بے قصور نوجوانوں کے کیریئر تباہ و برباد ہوکر رہ گئے اور ان کے خاندانوں کی بدنامی ہوئی۔ ANHAD نامی حقوق انسانی کی تنظیم نے اس سلسلے میں ’’بلی کے بکرے اور مقدس گائے‘‘ کے زیرعنوان ایک رپورٹ تیار کی، اسی طرح جامعہ ملیہ کی ٹیچرس اسوسی ایشن نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان Framed Dammed And Acquitted (جھوٹے الزامات میں ماخوذ ناحق سزا اور پھر الزامات ِ منصوبہ سے بری) تھا۔ اس رپورٹ میں بہت ہی خوبصورت انداز میں یہ بتایا گیا کہ عام طور پر مسلمانوں کو کیسے جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور پھر بعد میں ایک طویل مدت تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے انہیں رہا کردیا جاتا ہے اور وہ عدالتیں ہوتی ہیں جو کبھی کبھار ان مسلم نوجوانوں کے بچاؤ کیلئے آگے آتی ہیں اور انہیں راحت پہنچاتی ہیں۔ اس طرح ان کی رہائی عمل میں آتی ہے لیکن تب تک ان نوجوانوں کی زندگیاں، ان کا کیریئر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے۔ بے شمار زعفرانی لباس زیب تن کرنے والے اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ سے وابستگی رکھنے والے بھی ہیں جو نفرت پھیلاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں پارلیمنٹ میں بھوپال کی نمائندگی کرنے والی بی جے پی ایم پی سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر یاد آتی ہیں جو فی الوقت مالیگاؤں بم دھماکوں کے کیس میں ضمانت پر ہیں۔ وہ عوام کو مشورہ دے رہی ہیں کہ وہ لو جہاد میں ملوث عناصر کو سبق سکھانے کیلئے اپنی جھریاں تیز رکھیں۔ عدالت نے ایک اچھا قدم اٹھاتے ہوئے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ دفعہ 151 کے تحت نفرت پر مبنی تقاریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ایسی دفعہ موجود ہے تو پھر پولیس کارروائی کیوں نہیں کرپارہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مختلف ہندوتوا گروپوں کی جانب سے جنترمنتر پر (5 فروری 2023ء) ایک ریالی منعقد کی گئی جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو قتل کرنے ہتھیار جمع کرنے پر زور دیا گیا۔ ’’دی اِسکرال‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی ویڈیوز میں ایک ویڈیو جو سوشیل میڈیا پر کافی وائرل ہوا، اس میں ایک ہندو مذہبی رہنما ہندوؤں سے کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو قتل کرنے کیلئے ہتھیار جمع کریں، ایک اور ویڈیو میں بی جے پی لیڈر سوراج پال امو لوگوں کو تشدد پر اکسانے نظر آرہے ہیں۔ ہم نے اس طرح کی نفرت انگیز اپیلیں کرتے ہوئے لوگوں کو دھرم سنسدوں میں دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر یتی نرسنگھا نند اینڈ کمپنی جنہیں یقینا ریاست کی سرپرستی حاصل رہی اور وہ اس سرپرستی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات جاری کرتے رہے۔ معاشرہ میں مذہب کے نام پر زہر گھولا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں یتی نرسنگھانند، مہامنڈیشور آف جونا اکھاڑہ بھی اسی طرح کے بیانات جاری کررہے ہیں اور پوری شدت کے ساتھ وہ اس قسم کے نفرت آمیز بیانات دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کے خلاف کئی ایف آئی آر درج کئے گئے۔ اس نے خواتین کے خلاف ریمارکس کئے تھے اور ان کی ہردوار دھرمانند میں کی گئی نفرت آمیز اشتعال انگیز تقریر کیلئے بھی مقدمہ درج کیا گیا۔ اگر آپ حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو عام طور پر UAPA اور دوسری دفعات کے تحت الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات درج کئے گئے جہاں حکام نے ایک منصوبہ بند انداز سے انہیں جیلوں میں رکھا یا پھر جان بوجھ کر انہیں ضمانتیں دینے میں تاخیر کی گئی۔ اس کے برعکس ہندوتوا ؍ بی جے پی ؍ زعفرانی لباس زیب تن کرنے والے سنتوں کے خلاف ہلکے پھلکے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور شاذ و نادر ہی انہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔