مرکز کی نریندر مودی حکومت کرپشن کے الزامات میں کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے مختلف جماعتیں ایسی ہیں جن کے قائدین نے مقدمات اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے خوف سے خود بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ کچھ قائدین ایسے بھی ہیں جنہوں نے خوف کا شکار ہونے کی بجائے مقدمات کا سامنا کرنے کو ترجیح دی ۔ ان میں کچھ قائدین جیل بھی گئے اور کچھ اب بھی مقدمات جھیل رہے ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت حکومت کے یہ دعوے تھے کہ وہ کرپشن سے پاک ہے ۔ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں اپوزیشن کی جانب سے مسلسل کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ حالانکہ ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے لیکن یکے بعد دیگرے کئی معاملات منظر عام پر آئے اور عوام کو بھی یہ احساسہ ونے لگا ہے کہ بی جے پی حکومتوں میں کرپشن کے خاتمہ کے دعوے بے بنیاد اور غلط ہیں۔ کئی معاملات تو ایسے بھی ہیں جن میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے بی جے پی کے قائدین کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں بچایا گیا ہے ۔ ان کے خلاف الزامات کی جامع اور موثر تحقیقات کرنے کی بجائے انہیں ابتداء ہی سے کلین چٹ دی جانے لگی تھی ۔ اب مرکزی ادارہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں بی جے پی حکومت میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا انکشاف کیا ہے ۔ یہ کوئی اپوزیشن جماعت نہیں ہے یا اپوزیشن کے تحت کام کرنے والا ادارہ نہیں ہے ۔ یہ حکومت کا قائم کردہ آزادانہ کام کرنے والا ادارہ ہے ۔ اس کی رپورٹس کو سارے ملک میں قبولیت کی سند حاصل ہوتی ہے ۔ اس کی رپورٹس اور تحقیقات کو سارے ملک میں اہمیت بھی دی جاتی ہے اور اس کی بنیاد پر کرپشن اور بے قاعدگیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ادارہ نے دعوی کیا ہے کہ مرکزی حکومت کی اسکیمات میں بھی کرپشن ہوا ہے اور کروڑہا روپئے کا الٹ پھیر کردیا گیا ہے ۔ عوام اور استفادہ کنندگان کی بجائے درمیانی دلالوں کی جیب میں پیسہ چلا گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
گذشتہ مہینوں میں کرناٹک اسمبلی انتخابات ہوئے تھے ۔ وہاں کانگریس نے کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا ۔ سابقہ کرناٹک حکومت پر 40 فیصد تک کمیشن حاصل کرنے کے الزامات تھے ۔ اب مدھیہ پردیش میں پچاس فیصد کمیشن کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت وہاں الزامات پر وضاحت کرنے اور حقائق کو پیش کرتے ہوئے ان کی تردید کرنے کی بجائے یہ الزامات عائد کرنے والوں پر مقدمات درج کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے ۔ مقدمات درج بھی کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ اپوزیشن کے دعووں کو درست ثابت کرنے والی ثابت ہورہی ہے ۔ سی اے جی کی رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ مودی حکومت کی آیوشمان بھارت اسکیم میں کرپشن ہوا ہے ۔ یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ کئی ریلوے اسٹیشن ابھی قائم بھی نہیں ہوئے اور ان کی رقومات جاری کردی گئیں ۔ رقومات کس نے کھائی ہیں اور کس نے ہڑپی ہیں اس کی وضاحت ہونی چاہئے ۔ نیشنل ہائی ویز اتھاریٹی آف انڈیا میں بے قاعدگیوں کی بات کی گئی ہے ۔ حکومت کے تحت کام کرنے والے ادارہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ میں بھی بدعنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ ہائی ویز کی تعمیر میں رقمی خرد برد کے انکشافات بھی ہو رہے ہیں۔ یہ انکشافات بی جے پی کے ان دعووں کو کھوکھلا اور غلط ثابت کرتے ہیں کہ اس کی حکومتیں کرپشن سے پاک ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔
جن بی جے پی ریاستوں میں کرپشن ہوا ہے وہاں تو ریاستی حکومتیں اور چیف منسٹر ذمہ دار ہیں تاہم جہاں تک بات مرکزی حکومت کی اسکیمات میں کرپشن اور بدعنوانیوں کی ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہونی چاہئے ؟ ۔ کیا وزیر اعظم اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوتے ؟ ۔ ان کی ناک کے نیچے مرکزی اسکیمات میں اور پروگرامس میں کرپشن اور بے قاگیاں ہو رہی ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی انہیں قبول کرنی چاہئے ۔ ملک کے عوام کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کرنے کا دعوی کرنے والوں کی حکومتوں میں خود کرپشن پنپ رہا ہے اور عوام کے پیسے کو ہڑپ لیا جا رہا ہے ۔ اس پر عوام کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔