مرکزی بجٹ سے امیدیں

   

بہت حسین یہ دنیا تصورات کی ہے
بڑی عجیب یہ دنیا تخیلات کی ہے
پارلیمنٹ میں یکم فبروری کو مرکزی بجٹ پیش کیا جانے والا ہے ۔ مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے بجٹ کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ گذشتہ دنوں روایتی حلوہ تقریب بھی منعقد کی گئی ۔ نرملا سیتارامن اس تقریب میں موجود تھیں۔ مرکزی حکومت کی مختلف اسکیمات کا وزارت فینانس نے مختلف مراحل میںجائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات سے ان کی توقعات کے مطابق تجاویز حاصل کی گئی تھیں۔ ان تمام پر غور و خوض کرنے کے بعد نرملا سیتارامن نے بجٹ تیار کرلیا ہے اورا سے یکم فبروری ہفتے کو پارلیمنٹ میںپیش کیا جانے والا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مودی حکومت کا پہلا بجٹ ہے اور اس تعلق سے عوام میں اور مختلف شعبہ جات میں تجسس پایا جاتا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ یہ مودی حکومت کی تیسری معیاد کا پہلا بجٹ ہے ۔ حکومت کے دعووں اور معیشت کے اعدادو شمار کو سرکاری طور پر پرکھنے کا اسی بجٹ سے موقع مل سکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے معاشی صورتحال کی بہتری کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں عوام کو جو مشکلات درپیش آ رہی ہیں اس کی حقیقت کو حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی دکھائی نہیں دے رہی ہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور عوام مہنگائی کی مار سہنے کیلئے چھوڑ دئے گئے ہیں۔ ملک میں کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن کی حالت اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ کئی شعبہ جات میں پیداوار متاثر ہو کر رہ گئی ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن میں ملازمتوں کی تخفیف عمل میںلائی گئی ہے ۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں ملازمتیں کم کردی گئی ہیں۔ ان کا بحیثیت مجموعی ملازمتوں کی تعداد پر اثر پڑا ہے ۔ حکومت نے مختلف مراحل میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں کے تقرر نامے تقسیم کرکے بیروزگار پر قابو پانے کی کوشش کے طور پر اس اقدام کو پیش کیا ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ جتنی ملازمتیں کم ہوئی ہیں اس سے بہت کم فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ملازمتیں عارضی بھی ہیںجن کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ کئی ملازمتیں خانگی شعبہ جات میں دی گئی ہیں جبکہ سرکاری ملازمتوں کی فراہمی نہ ہونے کے برابر کہی جاسکتی ہے ۔
ملک میں کئی شعبہ جات ایسے ہیں جو مرکزی بجٹ میں اپنے لئے راحت اور مراعات کی توقع کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے گذشتہ کئی مرتبہ کے بجٹ میںفلاحی اسکیمات کیلئے رقومات کی فراہمی میںفراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ اس کے برخلاف اقلیتوں کیلئے جو رقومات فراہم کی جاتی ہیں وہ تو بالکل ہی صفر کے برابر ہیں۔ حکومت سب کا ساتھ سب کا وشواس کا نعرہ تو ضرور دیتی ہے لیکن جب فنڈز فراہم کرنے کی بات آتی ہے تو اس معاملے میں ہاتھ اور منہ دونوں بند کرلئے جاتے ہیں۔ اقلیتوں کی اسکالرشپس کی اجرائی کا تک سلسلہ مسدود کردیا گیا ہے ۔ جو اسکالرشپس برقرار رکھی گئی ہیں وہ بھی برائے نام اور صرف بظاہر رہ گئی ہیں کیونکہ ان کیلئے رقومات کی اجرائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے ۔ حکومت کو اپنی اس جانبداری اور متعصبانہ رویہ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتوں سے انصاف کا دعوی اگر کیا جاتا ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ زبانی جمع خرچ سے کچھ ہونے والا نہیں ہے اور اقلیتوں کو ملک کی ترقی میں برابر کی حصہ داری دینے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ انہیں تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں امتیازی رویہ کو ترک کیا جانا چاہئے ۔ جو ہنر ہاٹ حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے ہیں وہ بھی توقعات کے مطابق دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ انہیں توسیع دی جانی چاہئے ۔ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہئے اور اس کے ذریعہ اقلیتوں کو ہنرمند بنانے کیلئے نئی اور اختراعی اسکیمات کا آغاز کیا جانا چاہئے ۔
ملک میں اقلیتی امور سے متعلق وزارت کے فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ ناگزیر ہے تاکہ ان کے استعمال کے ذریعہ اقلیتوں کیلئے کچھ اقدامات ضرور شروع کئے جاسکیں جو ان کیلئے نفع بخش اور موثر ثابت ہوں۔ اس کے علاوہ حکومت کو انکم ٹیکس کی شرحوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے خاص طور پر تنخواہ پانے والے طبقہ اور مڈل کلاس گھرانوں کو راحت پہونچانے کیلئے کچھ اقدامات کی ضرور توقع کی جا رہی ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے ۔ اعداد و شمار کے الٹ پھیر پر اکتفاء کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں ملک کے عوام کو راحت پہونچانے کیلئے بجٹ میں گنجائش فراہم کی جانی چاہئے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس حد تک ان توقعات کو پورا کرتی ہے ۔