مرکزی حکومت کی بات چیت کیلئے مشروط تجویزمسترد

   

کسانوں کے ’’دہلی چلو‘‘ احتجاج میں شدت ، تمام سرحدوں پر دھرنے برقرار

نئی دہلی:زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ برہم کسان اپنے مطالبات کی تکمیل پر اٹل ہیں انہوں نے بات چیت کیلئے مرکزی حکومت کی تجویز کو بھی مسترد کردیا ۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کی بھارتیہ کسان یونین نے مرکزی حکومت کی طرف سے مذاکرات کے لئے پیش کی گئی تجویز کو اتوار کے روز ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد مسترد کر دیا۔ کسانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ احتجاج کے لئے براڑی کے نرنکاری میدان پر نہیں جائیں گے اور دہلی کی تمام سرحدوں پر کسانوں کا احتجاج بدستور جاری رہے گا۔ یہ فیصلہ کسانوں کی 30 تنظیموں نے مرکزی حکومت کی اس تجویز کے بعد مشترکہ طور پر لیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کسانوں سے مذاکرات اسی وقت شروع ہوں گے جب وہ احتجاج کا مرکز تبدیل کرتے ہوئے براڑی کے میدان پر آ جائیں گے۔بھارتیہ کسان یونین پنجاب کے بیر سنگھ راجیوال نے کہا کہ کسانوں کو کسی بھی طرح کی مشروط تجویز قابل قبول نہیں ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ این ڈی اے حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی کے تمام انٹری پوائنٹس پر احتجاج پہلے کی طرح بدستور جاری رہے گا۔ راجیوال نے دعوی کیا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ مرکزی حکوت کچھ طے شدہ شرائط پر ہی مذاکرات کرے گی، جو انہیں قطعی منظور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت غیر مشروط طریقہ سے مذاکرات کی میز پر آئے۔ ہمارے مطالبات پورے ہونے تک مظاہرہ بدستور جاری رہے گا۔ تمام مظاہرہ کرنے والے کسان دہلی کے داخلی اور خارجی نکات پر ڈٹے رہیں گے۔‘‘ کڑکڑاتی سرد راتوں کے باوجود ہزاروں کسان حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف دہلی کے سنگھو اور ٹیکری بارڈر پر جمع ہیں اور صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں جبکہ کسان لیڈران نے مرکزی حکومت کی مشروط تجویز پر غور و خوض کیا اور آگے کی حکمت عملی تیار کی۔ دریں اثنا، دہلی کو آنے والی متعدد سڑکیں اور داخلی نکات بند ہیں، جبکہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ براڑی کے میدان پر آجائیں، جیسے ہی کسان وہاں منتقل ہو جائیں گے مرکزی حکومت کی طرف سے ان سے مذاکرات شروع کر دیئے جائیں گے۔امیت شاہ نے کہا کہ جیسا کہ متعدد کسان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ ان سے بات چیت کی جائے، تو کسانوں کے وفد کو 3 دسمبر کو بات چیت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے ۔