مرکزی کابینہ اور مسلم نمائندگی

   

سلام تیری مروت کو مہربانی کو
ملا اک نیا سلسلہ کہانی کو
انتخابی عمل کی گہما گہمی ختم ہوچکی ہے اور ملک میں نظم و نسق کو ایک بار پھر سے موثر اورکارکرد بنانے پر نئی حکومت کی توجہ مبذول ہوگئی ہے ۔ مرکز میں نئی حکومت کا حلف ہوچکا ہے اور 72 مرکزی وزراء کو حلف دلانے کے ساتھ ساتھ ان میں قلمدان بھی تقسیم کردئے گئے ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں تشکیل پائی نئی حکومت میں جملہ 15 جماعتیں شامل ہیں۔ ان تمام جماعتوں کے مشترکہ طور پر 290 سے زائد ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ 72 وزراء ہیں۔ تاہم ان میں کوئی مسلم نمائندہ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مسلمان وزارت میں شامل کیا گیا ہے ۔ جو جماعتیں مرکز میں برسر اقتدار این ڈی اے گروپ کا حصہ ہیں ان تمام کے 290 سے زائد ارکان پارلیمنٹ میں بھی ایک بھی منتخب مسلمان نمائندہ نہیں ہے اور نہ ہی ان جماعتوں کے کسی مسلم رکن راجیہ سبھا کو مرکزی کابینہ میں نمائندگی دی گئی ہے ۔ نریندر مودی حکومت کی دوسری معیاد میں بھی آخری وقتوں تک مسلم وزیر کو کابینہ سے دور کردیا گیا تھا ۔ مودی حکومت کی ابتدائی دو معیادوں میںمحض مختار عباس نقوی کو وزارت میںشامل کیا گیا تھا اور پھر انہیں بھی راجیہ سبھا سے بھی باہر کردیا گیا اور مرکزی قلمدان بھی واپس لے لیا گیا تھا ۔ نریندر مودی اپنی حکومت کی ترجیحات کے طور پر گذشتہ دونوںہ ی معیادوں میں سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس جیسے نعرے دیتے رہے ہیں لیکن یہ نعرے محض زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ دو معیادوں میں بھی مسلمانوں کو وزارت میں موقع نہیں دیا گیا ۔ پہلی معیاد میں جو موقع دیا گیا تھا وہ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے تھا اور اب تیسری معیاد کے آتے آتے تو برائے نام نمائندگی بھی ختم کردی گئی ہے ۔ بات صرف بی جے پی کی حد تک نہیں ہے ۔ جوج ماعتیں مودی حکومت کا حصہ ہیں ان تمام جماعتوں سے بھی کوئی مسلمان لوک سبھا کیلئے منتخب نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی نے کابینہ میں کسی مسلم وزیر کو شامل کرنے کیلئے کوئی پہل کی ہے ۔ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں۔ 25 کروڑ کے آس پاس آبادی رکھنے والی برادری کو کابینہ سے دور کردینا انصاف کے تقاضوں کے مغائر ہے ۔
بی جے پی نے تو مسلمان امیدوار تک نامزد کرنے سے گریز کیا تھا ۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کامیابی کے امکانات پر ٹکٹ دیا جاتا ہے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی جتنے بھی ٹکٹ دیتی ہے محض مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ہی دیتی ہے ۔ مرکزی کابینہ کی تشکیل میں بھی ذات پات اور ریاستوں کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے ۔ ذات پات کے توازن کے مطابق ہی قلمدان دئے جاتے ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کو کابینہ سے دور رکھا گیا ہے اور یہ جہاں بی جے پی کی تنگ اور متعصب ذہنیت کا ثبوت ہے وہیں یہ مودی حکومت میںشامل حلیف جماعتوں کیلئے بھی اپنے سکیولر ازم پر سمجھوتہ کے مترادف ہے ۔ مودی حکومت کیلئے چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار جیسے قائدین کی مدد ضروری ہے جو خود کو سکیولر بھی قرار دیتے ہیںاور مسلمانوں کے مسائل پر اظہار خیال سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ان دونوںقائدین نے بھی فوری طور پر مسلمانوں کو کابینہ میں نمائندگی دینے کے مسئلہ پر کوئی نمائندگی نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی بیان دیا ہے ۔ جو دوسری جماعتیں این ڈی اے حکومت کی تائید کر رہی ہیں ان کی صفوں میں خود مسلم نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کابینہ میںشامل کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کی ذمہ داری زیادہ تر چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار پر عائد ہوتی ہے ۔ ان دونوں قائدین کو اس ذمہ داری کی تکمیل پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی انصاف کے نعرہ کی اہمیت برقرار رہ سکے ۔
نتیش کمار ہوں یا چندرا بابو نائیڈو ہوں دونوں کو مرکزی حکومت میں بہت اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ چند برس سیاسی طور پر کمزور رہنے کے بعد دونوں ہی قائدین کو پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بعد اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور وہ بادشاہ گر کے موقف میں آگئے ہیں۔ ان دونوں کو اپنی اپنی ریاست میں مسلمانوں کی تائید و حمایت بھی بہت زیادہ ضروری ہے ۔ ایسے میں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مودی حکومت پر دباؤ بنائیں اور کسی مسلمان کو کابینہ میں شامل کرنے کو یقینی بنائیں۔ اگر 72 رکنی کابینہ میں ایک بھی مسلمان کو شامل نہیں کیا جاتا ہے تو یہ تمام جماعتوں کی مسلم دوستی کا بھرم ختم کرنے کیلئے کافی ہوگا ۔