سب مجھے رونق بزم سمجھا کئے
میرے اندر کوئی شخص روتا رہا
ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے۔ ملک میں جہاں مرکزی حکومت کو برتری اور بالادستی حاصل ہے وہیں ریاستوں کی اہمیت اور ان کے رول سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے دستور اور قانون میں مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں کو جہاں واضح کردیا گیا ہے اور اس کے ذمہ تفویض کاموں کو واضح کردیا گیا ہے وہیں ریاستوں کی حصہ داری اور ان کی اہمیت کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ وفاقی طرز حکمرانی میں مرکزی حکومت کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے تاہم اس پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاستوں کو ساتھ لے کر چلے اور ہر معاملے میں ان کی رائے کو سنا جائے۔ ان کا حصہ ادا کیا جائے۔ ملک میں آزادی کے بعد پانچ سالہ منصوبے بناتے ہوئے ریاستوں کی حصہ داری کے ساتھ ملک کی بحیثیت مجموعی ترقی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے ان پانچ سالہ منصوبوں کو ترک کیا گیا۔ منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کیا گیا اور پھر اس کی جگہ نیتی آیوگ قائم کیا گیا۔ نیتی آیوگ کا کام بھی منصوبہ بندی کمیشن کی طرح کا ہی قرار دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں سبھی کے دائرہ اختیار کو دستور و قانون میں واضح کردیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ باہمی تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ مرکز اور ان ریاستوں میں تعاون نہیں ہو پا رہا ہے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہوں۔ ان ریاستوں میں گورنر کے ساتھ بھی ریاستی حکومتوں کے اختلافات عام ہوتے چلے گئے ہیں۔ نیتی آیوگ کے اجلاس میں ریاستیں حصہ لیتی ہیں اور اپنی رائے ظاہر کرتی ہیں تاکہ اپنی ریاستوں کی ترقی کے منصوبوں کو قطعیت دی جاسکے۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ریاستوں اور مرکز کے اختلافات سے نیتی آیوگ کے اجلاس کا بھی ریاستی حکومتیں بائیکاٹ کرنے لگی ہیں۔ یہ اچھی روایت نہیں کہی جاسکتی۔اس روایت کو ختم کرنا ہر دو فریق کی ذمہ داری بنتی ہے تاہم موجودہ صورتحال میں کوئی بھی فریق اپنی ذمہ داری نبھانے کو تیار نظر نہیں آتا۔ کئی چیف منسٹرس ایسے ہیں جنہوں نے حالیہ عرصہ میں نیتی آیوگ کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ کچھ چیف منسٹرس اجلاس میں شرکت بھی کر رہے ہیں۔
آج منعقدہ نیتی آیوگ کے اجلاس میں مغربی بنگال کی چیف منسٹر و ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی کا مائیک بند کردینے اور انہیں تقریر سے روک دینے کی شکایت سامنے آئی ہے۔ مرکزی حکومت حالانکہ اس الزام کی تردید کر رہی ہے اور حقائق کا پتہ چلانے کا اعلان بھی کیا ہے تاہم اس کو ٹال مٹول کی پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ نیتی آیوگ کا اجلاس کوئی دور دراز مقام پر نہیں ہوا۔ کئی عہدیدار اور وزرااور دیگر ذمہ داران اس اجلاس میں شریک رہے ہیں۔ سب سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ممتابنرجی اور بی جے پی کے تعلقات سبھی پر عیاں ہیں۔ ممتابنرجی کو مغربی بنگال میں اقتدار سے بیدخل کرنے بی جے پی ہر بار سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے اس کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ مغربی بنگال میں گورنر کا بھی ممتابنرجی حکومت سے ٹکراؤ عام بات ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں یہ الزام سامنے آنا کہ نیتی آیوگ کے اجلاس میں ممتابنرجی کا مائیک بند کردیا گیا تھا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ درست ہے لیکن ریاست اور ملک کی ترقی کے لئے ہونے والے اجلاسوں میں اس طرح کے بھید بھاو اور امتیازی سلوک کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا طرہ امتیاز اور اس کی انفرادیت ہے۔ اس کے ذریعہ سے ملک اور قوم کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے کوشش کی جانی چاہئے۔ سیاسی اختلافات کو اس طرح کے اجلاسوں سے دور رکھتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سیاسی اختلافات کو فروغ دینے اور ان پر عمل کرنے میدان دوسرے اور وسیع ہیں۔
ممتابنرجی بنگال پر حکمرانی کرتی ہیں اور وہ بنگال کے کروڑہا افراد کی نمائندہ ہیں۔ ان کی منتخب کردہ چیف منسٹر ہیں۔ انہیں مرکز اور ریاست کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کرنے والے اجلاسوں میں اس طرح کے سلوک کا نشانہ بنانا ہرگز بھی درست نہیں ہوسکتا۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں نہ صرف یہ کہ سخت نوٹ لینا چاہئے بلکہ سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جنہوں نے اس طرح کی حرکت کی اور چیف منسٹر مغربی بنگال کا مائیک بند کردیا۔ معاملہ کی جانچ پڑتال کرنے اور جائزہ لینے یا حقائق کا پتہ چلانے کے نام پر ٹال مٹول کی پالیسی اختیار نہیں کی جانی چاہئے۔ اس سے مرکز اور ریاست دونوں میں دوریاں بڑھ سکتی ہیں اور ترقیاتی اسکیمات اور پروگرامس پر عمل آوری میں رکاوٹیں اور مشکلات بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
تلنگانہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ
پارلیمانی انتخابات2004 میں تلنگانہ سے بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ریاست میں دوگنی ہوکر 8 تک پہونچ گئی تھی۔ جب پارلیمنٹ میں ملک کا عام بجٹ پیش کیا گیا تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ یہ ارکان پارلیمنٹ حکومت پر اثر انداز ہوتے ہوئے ریاست کیلئے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ یہ ارکان پارلیمنٹ حکومت پر اثر انداز ہونے کی بجائے خاموش رہ گئے اور تلنگانہ کے ساتھ مرکزی حکومت نے ایک بار پھر نا انصافی کی اور فنڈز سے محروم رکھا۔ مرکز نے اپنے اقتدار کو بچانے صرف بہار اور آندھرا پردیش کو فنڈز سے نواز دیا اور تلنگانہ سے نا انصافی کی گئی۔ بی جے پی کے یہی ارکان پارلیمنٹ اب تلنگانہ کے بجٹ پر تنقید کرنے لگے ہیں اور کئی شعبہ جات کیلئے فنڈز کم رہنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت سے نمائندگی تک کرنا گوارہ نہیں کیا اور ریاست کو فنڈز سے محروم ہونا پڑا۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہئے اور ریاست کے عوام کو جواب دینا چاہئے کہ ان کی نمائندگی کا دم بھرنے کے باوجود وہ فنڈز حاصل کرنے میں بری طرح ناکام کیوں رہے۔